27.6.11

1 - Ghazals In Urdu


1


یارب! لبِ خموش کو ایسا جمال دے
جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے

سوزِ درون ِ قلب کو اتنا کمال دے
جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے

پردے ہٹا، دکھا دے تجلّی سے شش جہات
پھر مطمئن وجود کو روح ِ غزال دے

وہ خواب مرحمت ہو کہ آنکھیں چمک اٹھیں
وہ سر خوشی عطا ہو کہ دنیا مثال دے

وہ حرف لکھ سکوں کہ بنے حرف ِ پُر اثر
اک کام کر سکوں تو مجھے گر مجال دے

میں اپنی شاعری کے لیے آئنہ بنوں
راحت نہیں، تو مجھ کو بقائے ملال دے

تیرے ہی آستاں پہ جھکی ہو جبین ِ دل
اپنے ہی در کے واسطے خوئے سوال دے



2


قلم کو اِذن ملے بابِ کبریائی سے
تو حرفِ نعت لکھوں دل کی روشنائی سے

درود، آسرا بن جاتا ہے دعا کے لیے
وگرنہ جان لرزتی ہے لب کشائی سے

بلند سر ہے یہ امّت، تمام امتّوں میں
ترے وجودِ مقدس کی آشنائی سے

مرے رسول! یہ امّت ہے زخم زخم تمام
عطا ہو اس کو شفا، لطفِ انتہائی سے

ہو ان پہ رحم کہ جو آنسوؤں میں ڈوب گئے
جبیں جھکاتے ہوئے فرطِ بے ریائی سے

توجہ ان پہ، جو گویا ہیں دھیمے لہجے میں
جو پچھلی صف میں ہیں احساس ِکم نمائی سے

قبول ان کی وفا بھی ہو یا رسول اللہ
پہنچ نہ پائے جو در پر شکستہ پائی سے

حضور! اُن کے دِلوں کو گداز بخشا جائے
جو سنگ بستہ ہوئے زَعم ِ پارسائی سے

حضور! ایک کرم کی نظر آُن آئنوں پر
شکستہ ہیں جو زمانے کی بے وفائی سے

حضور! جن کے گھروں میں چراغ جلتے نہیں
انہیں عطا ہو کرن، نور کی خدائی سے

حضور! اب ہوئے خاشاک و خس، دل و جاں بھی
جگائیے اِنہیں اک موجِ کہر بائی سے

ہمارے چاروں طرف جھوٹ موجیں مارتا ہے
حضور! اور بپھرتا ہے حق نوائی سے

ہے دل پہ بارِ غم ِ زندگی، اور اتنا ہے
حضور! ہٹتا نہیں ہے غزل سرائی سے

زمانہ اور زمان و مکاں نہیں مطلوب
حضور! ایک ہی پَل،عرصہء حِرائی سے

بس ایک خوابِ سَحر یاب،اس شبِ غم میں
حضور! ہم کو ملے قسمت آزمائی سے

بس ایک راہِ تمنّا، حصارِ دنیا میں
حضور! دل کی طرف، دل کی رہنمائی سے

بس اب تو نعت کہیں اور ٹوٹ کر روئیں
ملے گی راحتِ جاں، درد کی کمائی سے



3


کسی کے حسن ِنظر کی نظیر ہوں میں بھی
نگاہ ِاہل ِجہاں میں حقیر ہوں میں بھی

اگر تو حلقۂ شام و سَحر میں قید رہا
تو زندگی کے قفس میں اسیر ہوں میں بھی

مرے وجود میں جلتی اس آگ پر مت جا
اگر تو دور رہے، زمہریر ہوں میں بھی

ترے وجود سے منکر جہاں میں تھی میں ہی
تری نگاہ کی اب تو اسیر ہوں میں بھی

مرے لیے بھی رہیں اب فضائیں چشم براہ
صبا کے ساتھ خزاں کی سفیر ہوں میں بھی

وفا تو ساتھ نبھانے کا اک بہانہ ہے
رواج کی تری صورت اسیر ہوں میں بھی

میں صرف جسم نہیں ایک زندہ روح بھی ہوں
خدا کے بعد، سمیع و بصیر ہوں میں بھی



4


گھر کی ویرانی سے کب ہم کو پریشانی ہوئی
آنکھ تب چھلکی جب اس دل میں بھی ویرانی ہوئی

آسماں تا لا مکاں، تھا اک نظر کا سلسلہ
ایک ہی حسرت کی عالم میں فراوانی ہوئی

دولت ِدنیا سے پہلے ہی نہ تھا کچھ واسطہ
دولت ِہستی، تری راہوں میں ارزانی ہوئی

موج سی اٹھتی ہے میرے دل سے ان آنکھوں تلک
پتھروں جیسی طبیعت تھی مگر پانی ہوئی

لمس ِگم گشتہ! تری حسرت ہے میرا منتہا
زندگی تیرے طلسم ِشب کی زندانی ہوئی

ہم بھی کہتے تھے جہاں میں کچھ بدلنا ہے محال
عشق کی ٹھوکر سے ہر اک بات امکانی ہوئی

جیسے نیلے آسماں پر کھل اٹھا ہو ماہتاب
ایک بوسے سے، فلک آسا یہ پیشانی ہوئی



5


پہنچ کے منزل پہ بھی نہ چھوڑے گا ساتھ میرا
کسی ستارے نے تھام رکھا ہے ہاتھ میرا

مجھے تو بس ایک شکل ِدلدار ہی خوش آئی
زمانے بھر سے جدا تھا معیار ِ ذات میرا

وہ جیسے شبنم لرز کے رہ جائے پتیّوں پر
بہت نہیں تو اِسی قدر ہو ثبات میرا

ہزار حملے ہوئے پہ قائم انا ہے میری
کہاں شکست آشنا ہوا سومنات میرا

میں صرف ذرّہ ہوں، ذات اُس کی ہے ایک صحرا
یہی ہے علم ِحیات اور کائنات میرا


6


ام جو چہرے پہ لہراتے ہوئی رنگ کی تھی
بعد تیرے، وہی کاجل میں بسے رنگ کی تھی

نہ محبت کا جنوں تھا نہ کوئی خواہش ِلمس
بس شرارت تو فضاؤں میں چھپے رنگ کی تھی

دل سے نکلی تھی کوئی بات گلابی، آبی
لب سے پھوٹی ہوئی سرگوشی ہرے رنگ کی تھی

”آسماں حد ِنظر شیشۂ مے“ لگتا تھا
زندگی شام کے رنگوں میں ڈھلے رنگ کی تھی

اس کے لہجے کی دمک اور ہی محسوس ہوئی
اس کی آنکھوں میں چمک آج نئے رنگ کی تھی

یوں تو میں سہہ نہیں سکتی تھی حنا کی خوشبو
پر وہ شب، نرم ہتھیلی پہ سجے رنگ کی تھی

شاخ در شاخ بہت دور تلک ہم بھی گئے
ہاتھ آئی نہیں، تتلی بھی ہرے رنگ کی تھی

بحر ایسا کہ بہت ڈوب گئے دل زدگاں
موج ایسی کہ ہر اک لحظہ نئے رنگ کی تھی



7


میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آٰ ئینہ ہی بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی

وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ھے
میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھی

کبھی وقف ہجر میں ہو گئ کبھی خواب وصل میں کھو گئ
میں فقیر عشق بنی رہی، میں اسیر یاد ہوئ رہی

بڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئ
وہ رداےء ابر سپید جو ، سر کوہسار تنی رہی

ہوئ اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی
تو نہ جانے کون سی چیز کی میری زندگی میں کمی رہی



8


نہ شوق ہے، نہ تمنا، نہ یاد ہے دل میں
کہ مستقل کسی غم کی نہاد ہے دل میں

ہے الف لیلہ ولیلہ سی زندگی در پیش
سو جاگتی ہوئ اک شہر زاد ہے دل میں

جو ضبط چشم کے باعث نہ اشک بن پایا
اس ایک قطرہء خون کا فساد ھے دل میں

پھر ایک شہر سبا سے بلاو ا آیا ہے
پھر ایک شوق سلیماں نژاد ھے دل میں

ہے ایک سحر دلآویز کا اسیر بدن
تو جال بنتی، کوئ اور یاد ہے دل میں

تمام خواہشیں اور حسرتیں تمام ہوئیں
مگر جو سب سے عجب تھی مراد ہے دل میں



9


میں چونک چونک کے خود سے سوال کرتی تھی
میں زندگی کو عجب شے خیال کرتی تھی

بس ایک بے خبری میں بکھر بکھر جانا
وہ کمسنی کی ہوا کیسا حال کرتی تھی

ہم اپنے آپ سے اس کے طفیل ملتے تھے
وہ جھٹپٹے کی اداسی کمال کرتی تھی

تو کیسے مدتیں گزریں اسی کشاکش میں
جب اس سے قبل تو اک شب نڈھال کرتی تھی

عجیب لگتی ہے گو ایسی خود فراموشی
یہی تو حرف ِتمنا مجال کرتی تھی

خوشا وہ ہجر کی شب جو کبھی کبھی آ کر
ہمیں خود اپنی نظر میں بحال کرتی تھی



10


سفر آغاز کِیا بے سر و سامانی میں
ساتھ پانی بھی نہ رکھا جو چلے پانی میں

تن پہ بیتی تو کھلا، عشق ہے اک کار ِمحال
ہم تو آسان سمجھ بیٹھے تھے نادانی میں

چاند میں تجھ سی کوئی شکل نظر آتی ہے
اک ہنسی گونجتی ہے گھر کی بیابانی میں

پھر ہوا لے گئی، تھیں خواہشیں جس کاغذ پر
دور تک ساتھ گئے لوگ پریشانی میں

تو جو آئے تو نہ ہو ایک چراغ ایک امید
رنج ہے اس کے سوا کیا تہی دامانی میں

دل سے ہیں آنکھ تلک شور زمینیں شاید
ورنہ اس طرح نہیں ہوتا نمک پانی میں

یاد کے قافلے میں گھنٹیاں سی بجتی ہیں
پھول کھل جاتے ہیں اس دشت کی ویرانی میں

جا چکا وہ کسی تعبیر کے پیچھے کب کا
میں ابھی تک ہوں اسی خواب کی حیرانی میں



11


راحت ِعشق میں اندیشۂ غم رکھتا ہے
کون ہستی کے مقابل میں عدم رکھتا ہے

کس کی آواز سے لرزاں ہے یہ خاموشی ِدل
کون اس قریۂ حیرت میں قدم رکھتا ہے

روندتا جاتا ہے ہاتھوں پہ بنے رستوں کو
کون پیشانی کی محراب میں خم رکھتا ہے

با خبر شہر کے احوال سے رہتا ہے بہت
بس خبر میری تمنا کی وہ کم رکھتا ہے

جو وہ جاتا ہے تو کر لیتی ہوں دل کی تطہیر
وہ جب آتا ہے تو کعبے میں صنم رکھتا ہے

ان حوادث سے میں پتھر ہی نہ ہو جاؤں کہیں
اس لیے بھی وہ مری آنکھ میں نم رکھتا ہے

مجھ کو جینے ہی نہ دے کشمکش ِقلب و دماغ
ایک ہاتھ ایسا ہے جو ان کو بہم رکھتا ہے

دشت ِحیرانی میں جب خود سے بھی ڈر جاتی ہوں
کوئی شانے پہ مرے دست ِکرم رکھتا ہے



12


اک رات کا پچھلا پہر تھا وہ اور چاروں جانب سناٹا جب ہوا چلی
یوں لگا کسی کی آہٹ سے یہ سویا آنگن جاگ اٹھا جب ہوا چلی

میں تو اک گہری نیند میں تھی اورخواب انوکھا دیکھتی تھی جب آنکھ کھلی
اس خواب کی حیرانی میں ڈوبی آنکھ ڈری اور دل دھڑکا جب ہوا چلی

اُس گہری شام کے جنگل میں اُس بھید بھری خاموشی میں اک ساز بجا
پھر شاخوں نے نغمہ چھیڑا ۔ ۔ ۔ پھر ناچ اُٹھا پتا پتا جب ہوا چلی

پہلے ہلکی سرگوشی کی تنہائی نے، پھر چاپ ابھری اور ریت اڑی
پھر ہلکا ہلکا شور اٹھا ۔۔۔ پھر بول پڑا سارا صحرا جب ہوا چلی

اُس روزتو ہم بھی گم سم تھے اورساگر بھی خاموش تھا جیسے سوچتا ہو
پھر موج بہا لے جائے گی، اس ساحل پر جو نام لکھا جب ہوا چلی

کچھ ظاہر میں یوں لگتا تھا، اندر کا الاؤ بجھ بھی چکا دل سرد ہوا
لیکن اوپر سے راکھ ہٹی تو ایک عجب شعلہ بھڑکا جب ہوا چلی

ہر بار وہی امید بندھی، ہر بار یہی اس دل نے کہا تم آئے ہو
ہر بار وہی صدمہ جھیلا، جب اٹھ کر دروازہ کھولا جب ہوا چلی



13


ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے
اک عمر آئنے کے مقابل نہیں رہے

دیوانگی سے لوگ گریزاں ہیں کس لیے
کیا دشت اب نہیں ہیں کہ محمل نہیں رہے

مجبوریاں کچھ اور ہی لا حق رہیں ہمیں
دل سے ترے خلاف تو اے دل نہیں رہے

اب وقت نے پڑھائے تو پڑھنے پڑے تمام
اسباق، جو نصاب میں شامل نہیں رہے

بے چہرگی کا دکھ بھی بہت ہے، مگر یہ رنج
ہم تیری اک نگاہ کے قابل نہیں رہے

عمر ِرواں کے موڑ پہ کچھ خواب، میرے خواب
کھوئے گئے ہیں ایسے کہ اب مل نہیں رہے

اپنے لئے ہمیں کبھی فرصت نہ مل سکی
اُس کو گلہ کہ ہم اسے حاصل نہیں رہے

کیا رات تھی کہ شہر کی صورت بدل گئی
ہم اعتبار ِصبح کے قابل نہیں رہے



14


اپنے پاؤں تلے نہیں، پھر بھی
خوب صورت ہے یہ زمیں پھر بھی

جانے والے نے مُڑ کے دیکھا نہیں
منتظر ہے کوئی، کہیں پھر بھی

وہم ہو، خواب ہو، خیال ہو تم
خیر، ہم نے کِیا یقیں پھر بھی

وقت کچھ اتنا سازگار نہ تھا
بستیاں خواب کی بسیں پھر بھی

دشمنی کا کوئی جواز تو ہو
اس سے اب دوستی نہیں، پھر بھی

رات بھر اک خیال کی لوَ تھی
رات بھر آندھیاں چلیں، پھر بھی

خانۂ دل اُجڑ گیا ۔ ۔ ۔ آخر
بے خبر ہی رہے مکیں پھر بھی

اس سے بچھڑے ہوئے زمانہ ہوا
دل کو آتا نہیں یقیں پھر بھی

ٹوٹ کر سر پہ آن گرتا ہے
آسماں کانچ کا نہیں، پھر بھی



15


کیسے نہ رنگِ رُخ نظر آئے اُڑا ہوا
خود کو ہے زد پہ موج ِہوا کی رکھا ہوا

لمحات ِعیش چند تھے اور وہ بھی مختصر
عمر ِگریز پا سے مگر کب گلہ ہوا

شانہ کوئی نہیں ہے کہ سر رکھ کے روئیے
بس یوں ہے دل پہ ضبط کا پتھر رکھا ہوا

ہاتھوں میں پھول، آنکھ میں آنسو لیے کوئی
اک عمر سے ہے راہ ِوفا میں کھڑا ہوا

ہر خاک میں نمو نہیں پاتا ہے نخل ِغم
اس سرزمین ِعشق میں لگ کر ہرا ہوا

وہ شخص خود پسند و خود آرا و خود نِگر
اِس دل کو دیکھئے یہ کہاں مبتلا ہوا

وابستگان ِخواب سے پوچھو کہ ان کے ساتھ
” عبرت سرائے دہر“ سے گزرے تو کیا ہوا

ق

ہر صبح ِانتظار سے شام ِملال تک
لگتا ہے وقت حد ِازل پر رکا ہوا

اور رات بھی قیامت ِصغرٰی سے کم نہیں
دل میں ہے ایک یاد کا خنجر گڑا ہوا



16


سفر آغاز کِیا کیا کہ سسکنے لگی ریت
سانس میں بھر گئی آنکھوں میں کھٹکنے لگی ریت

دل کو پتھر سے جو ٹکرایا تو جلنے لگی آگ
تن پہ صحرا کو لپیٹا تو بھڑکنے لگی ریت

ترے سناٹے میں اس طرح سے گونجی مری بات
کہ مرے پاؤں کے نیچے سے سرکنے لگی ریت

تیز رَو اتنا نہ بن اے مرے صحرا زادے
صبر اے دل! تری رفتار سے تھکنے لگی ریت

غم مرا تھا مگر اک عمر سے گریاں ہے یہ رات
جوگ میرا تھا، جسے لے کے بھٹکنے لگی ریت

اب کریدے بھی تو کیا پائے گا یہ ناخن ِہوش
اور گہرائی میں کچھ اور دہکنے لگی ریت

کس کی آواز کا جادو تھا کہ بہنے لگی رات
کس کی آہٹ کا فسوں تھا کہ دھڑکنے لگی ریت

چاند نکلا ۔ ۔ ۔ تو بہت دور تلک پھیل گیا
نیند سے جاگ اٹھی اور چمکنے لگی ریت



17


تنہا، سر انجمن کھڑی تھی
میں اپنے وصال سے بڑی تھی

اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر
پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی

اک عمر تلک سفر کیا تھا
منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی

طالب کوئ میری نفی کا تھا
اور شرط یہ موت سے کڑی تھی

وہ ایک ہواےء تازہ میں تھا
میں خواب قدیم میں گڑی تھی

وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا
میں اپنے حضور میں کھڑی تھی



18


الہام، وحی کہ شاعری ہے
اس دل پہ جو آج اتر رہی ہے

یہ وصل ہے یا میں خواب میں ہوں
ہے خواب کہ وصل کی گھڑی ہے

سویا ہے وجود اور دل میں
اک چیز عجیب جاگتی ہے

خوشبو سے مہک رہا ہے آنگن
اور تن پہ بہار آ گئی ہے

آگوش میں کھل اٹھا ہے گلشن
ہونٹوں پہ گلوں سی تازگی ہے

آنکھوں میں چراغ جل رہے ہیں
ماتھے پہ انوکھی روشنی ہے

کچھ دور پہ ہے خزاں کا ڈیرہ
بستی یہ بہار میں بسی ہے

میں راہ پہ تیری چل رہی ہوں
دنیا مری سمت دیکھتی ہے

کم ہوں گے اسیر ِ یاد ِجاناں
یہ بھی تو عطائے زندگی ہے



19


ہمت مرا دل جو کھو رہا ہے
یہ جسم بھی سرد ہو رہا ہے

دشمن ہے مگر یہ کیسے کہہ دوں
کچھ روز وہ دوست تو رہا ہے

کیا رنج ہے جس کو اوڑھ کر دل
پہلو میں خموش سو رہا ہے

کالک تو نصیب پر لگی تھی
معصوم ہے چہرہ دھو رہا ہے

کیوں بھیگ رہی ہے رات میری
کیا کوئی کہیں پہ رو رہا ہے

اک خواب ہے جو امید کا بیج
پھر آنکھ میں میری بو رہا ہے

پھر خالق باد و آب و گل کا
کونپل میں ظہور ہو رہا ہے

اک آہ کے ساتھ جاگ اٹھے گا
اس خاک میں شعلہ سو رہا ہے



20


گو سایہء دیں پناہ میں ہوں
زندہ تو خود اپنی آہ میں ہوں

اُس منزلِ خواب کی طلب میں
مدت سے فریبِ راہ میں ہوں

کیا وہ بھی مرا ہی منتظر ہے
اک عمر سے جس کی چاہ میں ہوں

باہر تو لگا ہے سنگِ مر مر
میں دفن مگر سیاہ میں ہوں

پھر شاخ پہ مجھ کو پھوٹنا ہے
غلطاں ابھی خاک و کاہ میں ہوں

غم دینے کو تو نے چُن لیا ہے
خوش ہوں کہ تری نگاہ میں ہوں

کیسے تری حیرتی نہ ٹھہروں
گُم، انجم و مہر و ماہ میں ہوں

جو عشق مثال بن چکا ہے
اُس منزلِ غم کی راہ میں ہوں



21


سر تا پا جمال ہو گئی ہوں
میں تیری مثال ہو گئی ہوں

یوں خواب و خیال میں رہی میں
خود خواب و خیال ہو گئی ہوں

وہ مجھ سے جواب مانگتا تھا
میں خود ہی سوال ہو گئی ہوں

کیسے میں یہ کوہ ِعمر کاٹوں
دو دن میں نڈھال ہو گئی ہوں

آغاز نہیں ہوا ہے جو عشق
کیوں اس کا مآل ہو گئی ہوں

یوں اس کے فراق میں گزاری
خود اپنا وصال ہو گئی ہوں

رہتی ہوں حریم ِ بے خودی میں
خواہش میں کمال ہو گئی ہوں

لپٹا ہے وجود شاعری میں
اور صاحب ِحال ہو گئی ہوں



22


اک حسرت ِآب ہو گئی ہوں
میں خود ہی سراب ہو گئی ہوں

لکھی ہوں اک اجنبی زباں میں
ہونے کو کتاب ہو گئی ہوں

اک خواب میں جی رہی تھی اب تک
سو خواب ہی خواب ہو گئی ہوں

تھا کتنا سجا ہوا یہ چہرہ
اور کیسی خراب ہو گئی ہوں

گنتا جو رہا جو مجھ کو ہر پَل
بے حد و حساب ہو گئی ہوں

گوہر تھی کبھی دل ِصدف میں
اب نقش بر آب ہو گئی ہوں

کرتی تھی سوال زندگی سے
اب اپنا جواب ہو گئی ہوں

تُو بیٹھ کنار ِعشق، میں تو
سوہنی کا چناب ہو گئی ہوں

اب توڑ لیا چمن سے رشتہ
جنگل کا گلاب ہو گئی ہوں



23


سورج سے گری تھی اک کرن سرخ
ہے آج تلک زمیں کا تن سرخ

آیا ہے وہ جان ِبزم جب سے
ہونے لگا رنگ ِانجمن سرخ

کیا قتل ہوئی ہے کوئی خواہش
کیوں ہو گیا دل کا پیرہن سرخ

چہرہ ہے سپید فرط ِغم سے
آنکھوں میں جَڑے ہیں دو رتن سرخ

کیا آگ لگائی تھی خزاں نے
جل کر جو ہوا ہے سارا بن سرخ

شب، ہونٹ ترے سلگ رہے تھے
اب تک مرے عارض و دہن سرخ

سوزش تھی تمام رات دل میں
اور صبح تلک ہوا بدن سرخ

بدلا ہے چمن کا رنگ ایسے
لالہ ہے سفید، یاسمن سرخ



24


اب پھول چنیں گے کیا چمن سے
تو مجھ سے خفا، میں اپنے من سے

وہ وقت کہ پہلی بار دل نے
دیکھا تھا تجھے بڑی لگن سے

جب چاند کی اشرفی گری تھی
اک رات کی طشتری میں چَھن سے

چہرے پہ مرے جو روشنی تھی
تھی تیری نگاہ کی کرن سے

خوشبو مجھے آ رہی تھی تیری
اپنے ہی لباس اور تن سے

رہتے تھے ہم ایک دوسرے میں
سرشار سے اور مگن مگن سے

یہ زندگی اب گزر رہی ہے
کن زرد اداسیوں کے بن سے

کیا عشق تھا، جس کے قصّے اب تک
دہراتے ہیں لوگ اک جلن سے



25


اب اپنی اکائی چاہتی ہوں
میں تجھ سے جدائی چاہتی ہوں

خوشیوں کو بہت پرکھ لیا ہے
اب غم کی کمائی چاہتی ہوں

ہاتھوں سے لُٹا کر سب خزانے
اک چیز پرائی چاہتی ہوں

اے دل! تری راہ روک کر،میں
تیری ہی بھلائی چاہتی ہوں

ٹھکرا کے خلوص شہر بھر کا
اچھوں سے بُرائی چاہتی ہوں

پابند نہ ہو وہ خواب میرا
اک جلوہ نمائی چاہتی ہوں

گوشے میں سمٹ گئی ہوں دل کے
اور پوری خدائی چاہتی ہوں

اک عمر کی قید کاٹ آئی
اب خود سے رہائی چاہتی ہوں



26


چاہے تو یہاں لگائے ڈیرا
ہے خانہ بدوش عشق تیرا

ہاتھوں سے چھپاؤں تن کہ چہرا
ملبوس تو جل گیا ہے میرا

سورج سا غروب ہو رہا ہے
اترا مرے جسم پر اندھیرا

اک سانپ لگا ہوا تھا پیچھے
اک ناگ نے راستے میں گھیرا

آسیب نہ تھا تو کون شب بھر
گلیوں میں لگا رہا تھا پھیرا

دل، ایک ہی یاد کا پرندہ
کرتا کسی شاخ پر بسیرا

آیا ہے اگرچہ ڈرتے ڈرتے
ٹھہرے، مرے شہر پر سویرا

دھندلانے لگی ہے تیری صورت
آنکھوں پہ جھکا ہوا اندھیرا

چھوڑے مجھے میرے حال پر تو
احسان یہی بہت ہے تیرا



27


یہ عشق لگا رہے جبیں سے
دل شاہ بنا اسی نگیں سے

یہ کرۂ رنج ِزمہریری
پگھلے گا اک آہ ِآتشیں سے

ہے زندگی کیسی نا ملائم
اور خواب ہیں کیسے مخملیں سے

اترے تھے کبھی مرے بدن پر
کچھ رنگ، سپہر ِنیلمیں سے

وہ ڈھلتا ہوا بہار کا دن
وہ شام کے سائے سرمگیں سے

خورشید وداع ہو رہا تھا
لگتے تھے سحاب احمریں سے

وہ شب، وہ کنار ِآب، مہتاب
پھر سامنا ایک مہ جبیں سے

میں اپنی نگاہ چھوڑ آئی
لپٹی، اُسی چشم ِشبنمیں سے

ٹوٹا تو لکیر بن گئی تھی
ملتا تھا ستارہ جب زمیں سے



28


چمکا، ترے نام کا ستارہ
مدھم ہوا شام کا ستارہ

اب ہاتھ بڑھا کے مجھ کو چھو لے
میں ہوں ترے بام کا ستارہ

ہونٹوں پہ شرار بن گیا ہے
چھلکے ہوئے جام کا ستارہ

جب چاند مرا، نہیں افق پر
میرے نہیں کام کا ستارہ

ماتھے پہ سجا کے گھومتی ہوں
بس ایک ہی نام کا ستارہ

منزل تھی بہت ہی دور میری
وہ شخص تھا گام کا ستارہ

آقاؤں کے بجھ گئے تھے سورج
ابھرا جو غلام کا ستارہ

تنہا مجھے دیکھ کر، جو رویا
تنہا تھا وہ شام کا ستارہ


29


اک شمع ِکمالِ سر خوشی ہوں
اور اپنی خوشی سے جل رہی ہوں

ہوں نیند کی کیفیت میں گویا
گر بات کرو تو جاگتی ہوں

رستے میں پڑی ہوں روزوشب کے
کس شاخ سے ٹوٹ کر گری ہوں

پتھر ہی بنا لیا ہے خود کو
پتھر کے تلے اگر دبی ہوں

کیا آگ مجھے جلا رہی ہے
کس خاک کی مشت سے بنی ہوں

آندھی کی لپیٹ میں بدن ہے
اور روح میں اپنی گونجتی ہوں

ہوں موت سے مستعار شاید
ہونے کو تو ایک زندگی ہوں

معصوم، فرشتے اور پیمبر
اور میں تو فقط اک آدمی ہوں

تنہائی، خداؤں کا مقدر
میں تیرے وصال سے بڑی ہوں



30


رو لیجئے کہ پھر کوئی غم خوار ہو نہ ہو
ان آنسوؤں کا اور خریدار ہو نہ ہو

کچھ روز میں یہ زخم چراغوں سے جل بجھیں
کچھ روز میں یہ گرمئی ِ بازار ہو نہ ہو

عجلت بہت ہے آپ کو جانے کی ، جایئے
لوٹیں تو پھر یہ عشق کا آزار ہو نہ ہو

سو جائے تھک کے پچھلے پہر چشم ِ انتظار
اور کیا خبر کہ بعد میں بیدار ہو نہ ہو

دل کو بہت غرور ِ کشیدہ سری بھی ہے
پھر سامنے یہ سنگ ِ در ِ یار ہو نہ ہو

اچھا ہوا کہ آج بچا لی متاع ِ خواب
پھر جانے ایسی جرات ِ انکار ہو نہ ہو

ق

راہوں میں اس کی پھول ہمیشہ کھلے رہیں
قسمت میں اپنی گوشہء گلزار ہو نہ ہو

وہ قصر اور اس کے کلس جاوداں رہیں
ہم کو نصیب سایہء دیوار ہو نہ ہو

جب ہر روش پہ حسن ِ گل و یاسمن ملے
پھر گلستاں میں نرگس ِ بیمار ہو نہ ہو



31


رہ ِ فراق کسی طور مختصر کیجے
جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے

ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے
نہ آ سکیں تو بلندی سے ہی نظر کیجے

یہاں پہ چاروں طرف ہے سراغ رستوں کا
پر اختیار کوئی راہ دیکھ کر کیجے

یہ شہر و کوہ و بیابان و دشت و دریا تھے
اب آگے خواب ہے، رک جایئے ، بسر کیجے

بنے تھے خاک سے، ہم کو قیام کرنا تھا
ہوا ہیں آپ، اڑا کیجئے، سفر کیجے

ہم اپنے عہد ِ تمنا پہ اب بھی قائم ہیں
ذرا شریک ِ تمنا کو بھی خبر کیجے



32


سنگ میں قید تھا وجود اور خلا میں تھا نصیب
معجزۂ نگاہ سے ہو گیا کیا سے کیا نصیب

دشت ِفراق میں اٹھی ایسی صدائے الرّحیل
یا تو نہیں تھا ہم سفر، یا ہوا قافلہ نصیب

تیرگی ِجہاں میں تھی، دید بہت ہی بے مُراد
آنکھ کو خواب کیا ملا، شب کو ہُوا دیا نصیب

آگ میں پھول کا ظہور، برف میں شعلے کی نمود
واقعہ اس طرح کا پھر کب ہوا دیکھنا نصیب

شام ِسفر تھی اورصرف ہم ہی نہ تھے ستارہ جُو
سبز فلک پہ اپنے ساتھ چاند کا بھی کھلا نصیب

ہاتھ پہ اُس کے اک کرن، حرف میں بوئے یاسمن
رنگ ِجمال ِذات اوراس سے بھی کچھ سوا نصیب

خانۂ دل میں رکھ لیے اپنی زمیں کے خاک و سنگ
جس کونہیں یہ بُت عزیز، اس کو کہاں خدا نصیب

وہم کے گرد باد میں گُم ہوئیں ساری صورتیں
اب تو فقط گماں سا ہے، ہم کو تھا آئنہ نصیب



33


تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے
میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے

کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہئے؟
آنکھ بھی خوں ہو گئ دامن بھی اب گلنے کو ہے

گلستاں میں پڑ گئ ہے رسم تجسیم بہار
اپنے چہرے پر ہر اک گل،خون دل ملنے کو ہے

اجنبی سی سر زمیں نا آشنا سے لوگ ہیں
ایک سورج تھا شناسا،وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے

ہر نئ منزل کی جانب صورت ابر رواں
میرے ہاتھوں سے نکل کرمیرا دل چلنے کو ہے

شہر پر طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے آج
حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے

اک ہوائے تند اور ہمراہ کچھ چنگاریاں
خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے

سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب
کاروان انجم و مہتاب بھی چلنے کو ہے



34


ازل سے، ساتھ کوئی راز آشنا تو نہیں
یہ میرا دل کسی شاہد کا آئنہ تو نہیں

ہر ایک سانس کے ساتھ ایک آہ گونجتی ہے
نفس نفس میں کسی درد کی ثنا تو نہیں

کسی کے خواب کی تعبیر تو نہیں ہیں ہم
وہ خواب اور کسی خواب سے بنا تو نہیں

جو کاٹ آئے ہیں، دکھ کا عجیب جنگل تھا
جو آنے والا ہے، پہلے سے بھی گھنا تو نہیں

صدائے انجم و مہتاب پر بھی دل خاموش
یہ خاکداں کی کشش ہے، مری انا تو نہیں

یہ شش جہات ہیں اور ان کے بعد ہے اک ذات
اس آئنے میں پھر اپنا ہی سامنا تو نہیں؟



35


کار ِدنیا میں کچھ اے دل نہیں بہتر تو بھی
کوچہء عشق سے چن لایا ہے کنکر تو بھی

جب تلک بام ِ فلک پر ہے، ستارہ توُ ہے
اور اگر ٹوٹ کے گِر جائے تو پتھر تو بھی

یہ قناعت بھی محبت کی عطا ہے ورنہ
شہر میں اور بہت، ایک گداگر تو بھی

مرے اندازے سے کچھ بڑھ کے تھی ظالم دنیا
پاؤں رکھ ، راہ ِ تمنا پہ سنبھل کر تو بھی

اجنبی لگتا ہے کیوں عالم ِ بیداری مجھے
کہیں رہتا ہے مرے خواب کے اندر تو بھی

میں اسُی موڑ پہ منزل کی طلب چھوڑ آئی
ہو لیا جب سے مرے ساتھ سفر پر تو بھی

میں کرن وار شبِ ماہ میں تجھ پر اتری
موج در موج اٹھا، بن کے سمندر تو بھی

مانگنا بھول گئی میں تو تمنا کا صلہ
دوجہاں سامنے پھیلے تھے، برابر تو بھی



36


دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا
منزل ہی نہیں جب،سفرآغازکریں کیا

اُڑتے ہوئے جاتے تھے ستاروں سے بھی آگے
دل ٹوٹ کے گر جائے تو پرواز کریں کیا

کیا شہرِ مراتب میں ہوں مہمان کسی کے
آئے جو کوئی، دعوتِ شیراز کریں کیا

آنکھوں سے کسی خواب کی دوری پہ ہے دنیا
اس دشتِ فراموشی میں آواز کریں کیا

جب اتنی کفایت سے ملے تیری توجہ
کیا خرچ کریں اور پس انداز کریں کیا

تجھ سا جو کوئی ہو تو اسے ڈھونڈنے نکلیں
ایسا نہ ہو کوئی تو تگ و تاز کریں کیا

ناکام تمناؤں پہ محجوب سا اک دل
سرمایہء جاں یہ ہے تو پھر ناز کریں کیا

تجھ ایسا ہو قاتل تو کوئی جاں سے نہ کیوں جائے
ہوں لاکھ مسیحا بھی تو اعجاز کریں کیا

افشائے محبت بھی قیامت سے نہیں کم
اب فاش تری چشم کا ہر راز کریں کیا



37


منزل ِخواب لٹی، ختم ہوئی کاوش ِدل
اب تو بے چارگی ِجسم ہے اور کاہش ِدل

برف سی جمنے لگی معبد ِدل پر آخر
سرد ہونے لگا آتش کدۂ خواہش ِدل

پاؤں کے آبلے سہلانے کی فرصت کس کو
چین لینے نہیں دیتی ہے یہاں سوزش ِدل

اک فلک زاد کے چہرے پہ نظر ٹھہری ہے
لے کے جاتی ہے کہاں دیکھیے اب گردش ِدل

کیا کریں، اس کے لیے تن کو لگا لیں کوئی روگ؟
سخت انجان ہے، کرتا ہی نہیں پرسش ِدل

چشم حیران جدا، عقل سراسیمہ الگ
اور بڑھتی چلی جاتی ہے ادھر سازش ِدل

آنکھ میں بھیگی ہوئی شام کا منظر ہی رہا
کرۂ خواب پہ ہوتی ہی رہی بارش ِدل

ہم بھی خاموش گزر جائیں گے اوروں کی طرح
لے بھی آئی تیرے کوچے میں اگر لغزش ِدل

سرد کرتا ہے لہو، تیرے زمستاں کا خیال
منجمد ہونے نہیں دیتی مگر تابش ِدل

کوئی آئے تو چراغاں ہو سبھی راستوں پر
کوئی ٹھہرے تو سجے بزم گہ ِ خواہش ِدل

لب اگر بند رہے، آنکھ اگر ساکت تھی
تو جو آیا، ہمیں محسوس ہوئی جنبش ِدل

رونق ِ بزم سے کیا ہاتھ اٹھانا تھا کہ پھر
رنگ ِدنیا سے سوا ہو گئی کچھ رامش ِدل

راکھ کا ڈھیر ہی پاؤ گے پلٹ آنے پر
گر اسی طرح جلائے گی ہمیں آتش ِدل

شومئی بخت سہی، زندگی کچھ سخت سہی
پھر بھی قائم ہے ابھی حرمت ِجاں، نازش ِدل



38


نہ سہی گر نہیں ملتی کوئی آسائش ِدل
ہم تو اس شخص سے کرتے نہیں فرمائش ِدل

اس کی یادوں کے گلاب، اس کی تمنا کا چراغ
ایک مدت سے یہ ہے صورت ِآرائش ِدل

ایک مضراب سے بج اٹھتا ہے سازینۂ جاں
ایک تصویر سے ہو جاتی ہے زیبائش ِدل

توُ کہاں چھایا ہے، پھیلا ہے زمانہ کتنا
اِس نظر سے کبھی کی ہی نہیں پیمائش ِدل

اسُ سے کیا شکوۂ محرومی ِیک لطف ِبدن
جس کو معلوم نہیں معنی ِآسایش ِدل

اتنے وقت،اتنےعناصرسے بنا ہے یہ جہاں
کوئی بتلائے کہ کیونکر ہوئی پیدائش ِدل

راحت ِجاں سے گئے، اس کے بھی امکاں سے گئے
وہ جو ہوتی تھی کسی وقت میں فہمائش ِدل

یہ بجا ہے، نظر انداز کریں جسم کی بات
کوئی ٹالے گا کہاں تک بھلا فرمائش ِدل؟



39


شاید کہ موج ِ عشق جنوں خیز ہے ابھی
دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی

ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی

پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی

اک نونہال ِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج
اِس غم کی خیر ہو کہ یہ نوخیز ہے ابھی

سب ذرّہ ہائے نیلم و الماس ، گردِ راہ
میرے لیے وہ چشم گہر ریز ہے ابھی

کیا جانیے رہے گا کہاں تک یہ دل اسیر
کیا کیجئے وہ شکل دلآویز ہے ابھی

دیکھا نہیں ہے کوئی بھی منظر نظر کے پاس
رہوار ِ عمر، طالبِ مہمیز ہے ابھی


40


دل میں چھپی ہوئی تھی جو، زینتِ بام ہو گئی
آنکھ اٹھی تو ساری بات بر سرِ عام ہو گئی

ایک رفیق تھا سو دل اب ترا دوست ہو گیا
جو بھی متاع ِ خواب تھی سب ترے نام ہو گئی

دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصف نہار پر کبھی
عرصہء زندگی میں بس صبح سے شام ہو گئی

خواہشِ ِ ناتمام کو پیش ِ زمانہ جب کِیا
رم ہی کبھی کِیا نہ تھا، اِس طرح رام ہو گئی

شام کے راستے پہ تھا ایک خیال ہم رکاب
پھر تو ہَوا بھی ساتھ ساتھ محو ِ خرام ہو گئی

کیسی اڑان کی ہمیں تجھ سے امید تھی مگر
زندگی! تُو بھی طالبِ دانہ و دام ہو گئی

کلفت ِ جاں سے ایک ہی ساعتِ خوش بچائی تھی
اور وہ نذر ِ گردش ِ ساغر و جام ہو گئی

میں نہ جھپک سکی پلک مجھ پہ جھکا تھا جب فلک
حد سے بڑھی تو خامشی، خود ہی کلام ہو گئی

شہر میں ان کے نام کے چند چراغ جل اٹھے
راہروان ِ شوق کو دشت میں شام ہو گئی



41



تلخ ِدنیا کام کر جانے کو تھا
نشہّ ٔ الفت، اتر جانے کو تھا

ہاں گزر جائے گی یہ فصل ِخزاں
موسم ِ گل بھی گزر جانے کو تھا

سامنے تھا سِحر اُس کی آنکھ کا
دل سے انہونی کا ڈر جانے کو تھا

پاؤں بھی ٹھٹھکے ہوئے تھے دل کے ساتھ
کس طرف اک رہگزر جانے کو تھا

میری آنکھیں انَ بنی تھیں اور اُدھر
تھک کے میرا نقش گر جانے کو تھا

ٹوکتی تھی اپنی تنہائی مجھے
تیری قربت کا اثر جانے کو تھا

جو جیا تھا دو دِلوں میں ایک ساتھ
کیا وہ جذبہ یونہی مر جانے کو تھا

لگ رہی تھی وحشت ِدل ، دائمی
اعتبار ِدشت و در جانے کو تھا

ہم بھی جیتے تو تماشا دیکھتے
کون مقتل، کون گھر جانے کو تھا

طے ہوا تھا، اب جُدا ہیں راستے
اور میرا ہم سفر جانے کو تھا

ساری سمتیں ختم ہوتی تھیں جہاں
عشق کیسا بے خطر جانے کو تھا



42


فشار ِچشم و سویدائے دل نہیں ہوتی
مگر وہ یاد کبھی مندمل نہیں ہوتی

خوشی کے بعد اداسی، سحر کے بعد ہے شام
سو اپنی حالت ِدل ۔۔۔ مستقل نہیں ہوتی

ہے خواب میں وہ عجب قوت ِنمو کہ کبھی
رہین ِآتش و باد، آب و گِل نہیں ہوتی

کچھ احتمال اگر صبح ِدید کا ہوتا
شب ِفراق بہت جاں گسل نہیں ہوتی

تو کیا وہ راحت ِجاں عشق، اب نباہ بنا؟
وگرنہ دل پہ یہ پتھر کی سِل نہیں ہوتی!

کبھی نفَس میں، کبھی سانس میں بھڑکتی ہے
یہ آگ خون میں کیوں منتقل نہیں ہوتی

اب ایک کنج ِقناعت میں دل کو لے چلئے
کہ اُس مقام پہ دنیا مخل نہیں ہوتی



43



غروبِ شام سے پہلے پلٹ کر اپنے گھر آئے
ہم اُس شہر ِ مراسم سے ذرا جلدی گزر آئے

ابھی درپیش کالی نیند کی لمبی مسافت ہے
نجانے کون سی منزل پہ خواب ِخوش نظر آئے

ہوائیں مختلف تھیں، آسماں کا رنگ بدلا تھا
گئے سب حوصلے جب تک ہمارے بال و پر آئے

افق کے ساتھ لگ کر جانے کب سے منتظر ہے یہ
چلو دروازہء شب کھول دیں تاکہ سَحر آئے

جنہیں بچپن میں پیچھے چھوڑ کر آئے تھے،رستے میں
وہی گلیاں، وہی کوچے، وہی دیوار و در آئے

تری چارہ گری کے بعد تن تو رُو بصحت تھا
مگر دل پر نشان ِ ہجر جانے کیوں ابھر آئے

نہیں بھولے سے آتی اک کرن اس طالع ِ غم میں
اگرچہ حوت میں ہم کو کبھی زہرہ نظر آئے

کبھی پتھر کی صورت اور کبھی دیوار کی صورت
ہم ایسے لوگ، اپنے راستے میں عمر بھر آئے

زمیں سے ہو کے یہ آنکھیں فلک کی سمت اٹھتی ہیں
کسی جانب سے تو یارب! کوئی اچھی خبر آئے



44


چند گِلے بُھلا دیے چند سے درگزر کِیا
قصہء غم طویل تھا ، جان کے مختصر کِیا

جھوٹ نہیں تھا عشق بھی،زیست بھی تھی تجھے عزیز
میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کِیا

جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں
میں نے تو ریت اوڑھ لی، میں نے تو کم سفر کِیا

تیری نگاہِ ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ
شوق تھا کچھ اگر رہا،رنج تھا کچھ اگر کِیا

ٹوٹ کے پھر سے جُڑ گیا خواب کا زرد سلسلہ
میں نے ترے فراق کو نیند میں ہی بسر کِیا

راہ بہت طویل تھی راہ میں اک فصیل تھی
اُس کو بھی مختصر کِیا ،اِس میں بھی ایک در کِیا

ہم تو عجیب لوگ تھے ہم کو ہزار روگ تھے
خوب کِیا جو آپ نے غیر کو ہم سفر کِیا



45


میں خود سے پوچھ رہی تھی،کہاں گئے مرے دن
مجھے خبر ہی نہ تھی رائگاں گئے مرے دن

گئے ہیں وحشت صحرا سمیٹنے کے لیے
کہ سوئے بزم و سر گلستان گئے مرے دن

بہت اداس نہ ہو دل شکستگی سے مری
مرے حبیب،مرے رازداں ! گئے مرے دن

خدا کرے کوئ جوئے مراد سامنے ہو
بدوش گرد رہ کارواں گئے مرے دن

کوئ نگاہ، کوئ دل، نہ کوئ حرف سپاس
نہیں تھا کوئ بھی جب پاسباں ،گئے مرے دن

بہت سے لوگ گلی کا طواف کرتے تھے
بس اس قدر ہے مری داستاں،گئے مرے دن



46



دشت میں اک طلسم آب کے ساتھ
دور تک ہم گئے سراب کے ساتھ

پھر خزاں آئ اور خزاں کے بعد
خار کھلنے لگے گلاب کے ساتھ

رات بھر ٹوٹتی ہوئ نیندیں
جڑ گئیں سحر ماہتاب کے ساتھ

ہم سدا کی بجھے ہوئے تھے
وہ تھا پہلی سی آب و تاب کے ساتھ

چھوٹی عمروں کی پہلی پہلی بات
کچھ تکلف سے کچھ حجاب کے ساتھ

اور پھر یہ نگاہ خیرہ بھی
ڈوب جائے گی آفتاب کے ساتھ

رات کی طشتری میں رکھی ہیں
میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ

یہ فقط رسم ہی نہیں اے دوست
دل بھی شامل ہے انتساب کے ساتھ



47


جیسے یہ درد سے بنی ہوئ تھی
شام اس طرح کاسنی ہوئ تھی

رات کی اپنی روشنی تھی بہت
دھوپ کے جیسی چاندنی ہوئ تھی

کوئ ذی روح دور دور نہ تھا
اور خموشی بہت گھنی ہوئ تھی

کون تھا بن میں بھیگنے والا
چادر ابر کیوں تنی ہوئ تھی

گونجتی تھی ہر ایک سانس کے ساتھ
اک تمنا جو راگنی ہوئ تھی

ایک مدت کے انتظار کے بعد
اس دریچے میں روشنی ہوئ تھی

آئینہ کیوں سیاہ لگتا تھا؟
کیا اندھیرے سے میں بنی ہوئ تھی



48


رنگ آنے لگا ہے محفل پر
خامشی چھا رہی ہے اس دل پر

شام اتری ہے جل پری کی طرح
روشنی ہو گئی ہے ساحل پر

جان خود اس کی نذر کرتے ہیں
کیا بھروسا ہے اپنے قاتل پر

راستون سے جڑے ہوئے رستے
کون رکتا ہے سنگ ِ منزل پر

زیست کے راز ہائے گونا گوں
انحصار ایک چشم غافل پر

دشت میں رات ہے اداسی ہے
قیس پر، کارواں پہ، محمل پر

غور کرتے ہیں مسکراتے ہیں
ایک کے بعد ایک مشکل پر

تم کہاں، ہم قصور وار ہوئے
اپنے اک اعتبار باطل پر

عشق کی انتہا اگر غم ہے
ہم بھی نازاں ہیں اپنے حاصل پر



49



ایک مدت سے یوں ملے ہی نہیں
جیسے تم زندگی میں تھے ہی نہیں

جس طرح جھوٹ تھا وہ پاگل پن
جیسے الفت کے غم سہے ہی نہیں

جیسے ہم مرکزِ نگاہ نہ تھے
جیسے اس دل میں بسے ہی نہیں

جیسے وہ سر کبھی جھکا ہی نہ تھا
جیسے آنسو کبھی بہے ہی نہیں

کیا کوئی اور خواب دیکھتے ہو
یا تم اب خواب دیکھتے ہی نہیں؟

ہم نہ کرتے کبھی گلہ تم سے
خیر، اب تو وہ رابطے ہی نہیں

آخرِکار ۔۔۔ جینا سیکھ لیا
خوش رہے ہم، فقط جیے ہی نہیں

جب رہائی ملی پرندوں کو
تو کھلا، بال و پر ملے ہی نہیں

کاروبارِ حیات زور پہ تھا
ہم مگر اُس طرف گئے ہی نہیں


50



آسماں کوئی جو تا حد نظر کھولتا ہے
طائر جاں بھی یہ بھیگے ہوئے پر کھولتا ہے

نام آتا ہے مرا ہجر کی سرگوشی میں
تیری محفل میں کوئی لب بھی اگر کھولتا ہے

دور سے ایک ستارہ چلا آتا ہے قریب
اور اس خاک پہ اک راز سفر کھولتا ہے

لوٹنے والے ہیں دن بھر کے تھکے ہارے پرند
اپنے آغوش محبت کو شجر کھولتا ہے

موجہء باد صبا بھی جو کبھی چھو جائے
ایسا لگتا ہے مرا زخم جگر کھولتا ہے

غیر سب جمع ہوئے آتے ہیں پرسش کے لیے
کوئی اس حال میں کب دیدہء تر کھولتا ہے

کون کرتا ہے زمانوں کا سفر اس دل تک
دیکھئے کون اب اس قصر کا در کھولتا ہے



51


صورت صبح بہاراں چمن آراستہ ہے
چہرہ شاداب ہے اور پیرہن آراستہ ہے

شہر آباد ہے اک زمزمہء ہجر سے اور
گھر تری یاد سے اے جان من ! آراستہ ہے

جیسے تیار ہے آگے کوئی ہنگامہء زیست
اس طرح راہ میں باغ عدن آراستہ ہے

کوئی پیغام شب وصل ہوا کیا لائی
روح سرشار ہوئی ہے، بدن آراستہ ہے

اے غم دوست!تری آمد خوش رنگ کی خیر
تیرے ہی دم سے یہ بزم سخن آراستہ ہے

دل کے اک گوشہء خاموش میں تصویر تری
پاس اک شاخ گل یاسمن آراستہ ہے

رامش و رنگ سے چمکے ہے مرا خواب ایسے
نیند میں جیسے کوئی انجمن آراستہ ہے

اس نے سورج کی طرح ایک نظر ڈالی تھی
رشتہء نور سے اب بھی کرن آراستہ ہے

کیا کسی اور ستارے پہ قدم میں نے رکھا
کیسی پیراستہ دنیا، زمن آراستہ ہے

کیسے آئے گا زمانہ مجھے ملنے کے لیے
میرے رستے میں تو دنیائے فن آراستہ ہے



52


کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں
روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں

سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی
اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں

ایک خوشبو سی کسی موسم ِ نادیدہ کی
آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں

یہ جو بنتا ہے اجڑتا ہے کسی خواب کے ساتھ
ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے ان ہاتھوں میں

نقش کچھ اور بنائے گئے سب چہروں پر
بھید کچھ اور چھپائے گئے سب ذاتوں میں

شاعری،خواب،محبت، ہیں پرانے قصے
کس لیے دل کو لگائے کوئی ان باتوں میں

ہفت خواں یوں تو ملے عشق کے اس رستے پر
ہجر ہی منزل ِ مقصود ہوئی ، ساتوں میں

دست بردار ہوئے ہم تو تمناؤں سے
عمر گزری چلی جاتی تھی مناجاتوں میں



53



دور کہیں تارا ٹوٹا تھا
سویا رستا جاگ گیا تھا

سر پر تاج نہ دل میں نخوت
وہ کس دیس کا شہزادہ تھا

لہریں لیتے اس پانی پر
شیشے کا اک فرش بچھا تھا

ایک کنارے پر میں ششدر
دوسری جانب تو بیٹھا تھا

بیچ میں پھیلی ساری دنیا
تیرا میرا ملنا کیا تھا

تیری آنکھیں کیوں بھیگی تھیں
ہجر تو میرے گھر اترا تھا

دھوپ ہوئی تھی شہر سے رخصت
اندھیارا امڈا آتا تھا

سرد ہوا کا بازو تھامے
چاند بہت خاموش کھڑا تھا

خواب کے اندر نیند بھری تھی
نیند کے دل میں خواب چھپا تھا

آخر کو اک پھول سنہرا
ان ہونٹوں پر مرجھایا تھا



54


دروازے پر قفل پڑا ہے
کون اس پر دستک دیتا ہے

تنہائی ہے تیز ہوا ہے
میرا غم سوکھا پتا ہے

دور تلک پھیلا یہ صحرا
کس کا رستہ دیکھ رہا ہے

رستے سے کچھ دور بسی اک
تنہائی کی محل سرا ہے

تیری یاد وہاں بکھری تھی
میرا درد یہاں پھیلا ہے

پیچھے زخموں کا جنگل تھا
آگے خون کا اک دریا ہے

پھول خزاں میں مرجھاتے ہیں
میرے دل کا پات ہرا ہے

چونک گئی ہوں جیسے سچ مچ
میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے

لمس تیرا نہ کہیں کھو جائے
مٹھی کھولتے ڈر لگتا ہے

اب تو کسی کا آنا مشکل
آدھی رات ہے،سرد ہوا ہے


55


نیند میں کیسی نیند بھری تھی
آنکھ سے دل تک بے خبری تھی

سپنے میں اک شیش محل تھا
باغ کے اندر بارہ دری تھی

نیلا امبر ، کالا بن تھا
پھول گلابی، شاخ ہری تھی

میرا چہرہ ان آنکھوں میں
خوش فہمی یا خوش نظری تھی

جیون کیسا رنگ بھرا تھا
دنیا کتنی بھاگ بھری تھی

خواب میں کون قریب آیا تھا
کس آہٹ سے نیند ڈری تھی

طشت میں تھا اک زہر کا پیالہ
ساتھ ھی اک تلوار دھری تھی

میرے دل میں اس کا غم تھا
اس کے جام میں لال پری تھی



56


فضائے شہر محبت بدلنے والی ہے
دل تباہ کی قسمت بدلنے والی ہے

بدلنے والی ہے اب سے ردائے لالہ وگل
ہوائے دشت کی نیت بدلنے والی ہے

پھر ایک جلوہء صد رنگ کے تسلسل میں
نگاہ آئینہ ، حیرت بدلنے والی ہے

بس ایک بار تجھے ہم قریب جاں دیکھیں
پلٹ کے دیکھ، یہ حسرت بدلنے والی ہے

کہیں پہ نیم اجالا، کہیں پہ تاریکی
شب ملال کی صورت بدلنے والی ہے

قمر نے ایک نئے برج میں قدم رکھا
زمیں پہ ہجر کی ساعت بدلنے والی ہے

فسون مرگ میں ہے زندگی کئی دن سے
سو اپنا جامہء وحشت بدلنے والی ہے

ہمیں تو عشق نے ہجرووصال میں رکھا
سنا ہے وجہ رفاقت بدلنے والی ہے

خبر ہوئی کہ ہے دل ہی نگار خانہء حسن
نظر کی سمت مسافت بدلنے والی ہے

نئی صدی ہے اور اس کے نئے تقاضے ہیں
ہر آدمی کی ضرورت بدلنے والی ہے



57


چراغ بام توہو، شمع انتظار تو ہو
مگر ہمیں ترے آنے کا اعتبار تو ہو

کسی کی دید تو ہو،نیند کا سراب سہی
خدائے خواب! ہمیں اتنا اختیار تو ہو

کھلیں گے ہم بھی برنگ گل و بسان شرر
ترے نگر میں چراغاں تو ہو، بہار تو ہو

وہ ابر ہے تو کسی خاکنائے پر برسے
جو خاک ہے، تو کسی راہ کا غبار تو ہو

ہوا کے ساتھ ھی آئے، ہوا کے ساتھ ہی جائے
پر ایک رشتہء جاں اس سے استوار تو ہو

جو زندگی کی طرح سامنے رہا ہر دم
وہ راز اپنی نگاہوں پہ آشکار تو ہو

ہے جس کا ورد شب و روز کے وظیفے میں
در وفا، تری تسبیح میں شمار تو ہو

یہ کیا، وہ سامنے ہو اور دل یقیں نہ کرے
نگاہ شوق پہ تھوڑا سا اعتبار تو ہو

تمام عمر ستاروں کے ساتھ چلتے رہیں
فلک پہ ایسا کوئی خطّ رہگزار تو ہو



58


کچھ اجنبی سی صداؤں سے بات کی ہم نے
جب ایک شام ہواؤں سے بات کی ہم نے

اُنہیں بتایا پتہ آسمان والے کا
زمیں کے سارے خداؤں سے بات کی ہم نے

تھے اپنے خواب کے اک داستاں سرا ہم بھی
نگر کے خواب سراؤں سے بات کی ہم نے

سہارا کوئی نہ تھا دھوپ میں رفیقوں کا
سو ایک پیڑ کی چھاؤں سے بات کی ہم نے

دوبارہ اِس دل ِ مایوس میں اترنے کو
پلٹ کر آتی دعاؤں سے بات کی ہم نے

سفر کے بعد ضروری ہے ایک منزل بھی
چنانچہ راہنماوں سے بات کی ہم نے

جدھر ذرا سا گماں تھا تمہارے ہونے کا
ادھر سے آتی ہواؤں سے بات کی ہم نے

ہم اپنی خامشی سب کو کہاں سناتے ہیں
یہی بہت ہے خلاؤںسے بات کی ہم نے

سب اپنے طالع ِ بیدار کی تلاش میں تھے
جہاں کے بخت رساؤںسے بات کی ہم نے

یہ اہل ِعشق بھی کیا خاک سے بنے ہوں گے؟
عجیب شعلہ نواؤں سے بات کی ہم نے



59


ہوائے یاد نے اتنے ستم کیے اس شب
ہم ایسے ہجر کے عادی بھی رو دیے اس شب

فلک سے بوندیں ستاروں کی طرح گرتی ہوئی
بہک رہی تھی وہ شب جیسے بے پیے اس شب

بھڑکتے جاتے تھے منظر بناتے جاتے تھے
ہوا کے سامنے رکھے ہوئے دیے اس شب

عجب تھے ہم بھی کہ دیوار نا امیدی میں
دریچہ کھول دیا تھا ترے لیے اس شب

چراح بام نہ تھے، شمع انتظار نہ تھے
مگر وہ دل کہ مسلسل جلا کیے اس شب

وہ چاک چاک تمنا،وہ زخم زخم بدن
تری نگاہ دلآرام نے سیے اس شب

خبر ہوئی کہ جلاتا ہے کس طرح پانی
وہ اشک شعلوں کے مانند ہی پیے اس شب

وہ شب کہ جس کے تصور سے جان جاتی تھی
نجانے صبح تلک کس طرح جیے اس شب


60



دن تری یاد کے ہوئے شب ترے نام کی ہوئی
کچھ بھی نہ تھی یہ زندگی،اب کسی کام کی ہوئی

مطلع ِ خواب پر کہیں کوئی طلوع ہو گیا
آج کے بعد تو نظر بس اُسی بام کی ہوئی

سارے بدن پہ چھا گئی جیسے کہ بوئے یاسمیں
دل کو عجب طرح خوشی اُس سے کلام کی ہوئی

عشق ِ طلسم رنگ نے کیسا کِیا ہے معجزہ
اوّل ِ ماہ کی یہ شب، ماہِ تمام کی ہوئی

کوئی سفر میں ساتھ تھا، ہاتھ میں اُس کا ہاتھ تھا
باد ِ صبا بھی معترف حسن خرام کی ہوئی

دشت کو بَن بنا گئی؟ کون سے گُل کِھلا گئی؟
وہ جو کوئی بہار تھی آپ نے عام کی ہوئی

پردہء ابر میں کہیں چھپ گیا رُوئے آفتاب
دن میں بہت خفیف سی روشنی شام کی ہوئی

لے کے زیاں و سود کو، ہست کو اور بود کو
موج ِ فنا بھی پھر اُسی بحر ِ دوام کی ہوئی



61


شام کو ہو کے بے قرار یاد نہیں کِیا تجھے
کب یہ ہوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے

خواب سجا کےجی لیےدل سےلگا کےجی لیے
رشتہء دردِ استوار، یاد نہیں کِیا تجھے

دانش ِخاص ہم نہیں یوں توجُنوںمیں کم نہیں
دل پہ ہے اتنا اختیار، یاد نہیں کِیا تجھے

فصل ِ بہار پھر خزاں،رنگِ بہار پھرخزاں
آئی ہے پھر سے اب بہار یاد نہیں کِیا تجھے

اشک جو ختم ہو گئےخود سے لِپٹ کےسوگئے
کوئی نہیں تھا غمگسار، یاد نہیں کِیا تجھے

کتنی کہانیاں کہیں، کتنے فسانے بُن لیے
بن گئے داستاں نگار، یاد نہیں کِیا تجھے

سخت اداس تھا نگر،سہمے ہوئے تھے بام و در
دور تھے سارے رازدار، یاد نہیں کِیا تجھے

ایک چراغ راہ میں دیر تلک جلا کِیا
بجھ گئی چشم ِ سوگوار یاد نہیں کِیا تجھے

ڈھونڈ لیا ترا بدل کہتے ہی کہتے اک غزل
سوئے ہیں اہل ِ انتظار، یاد نہیں کِیا تجھے



62


پھول روش روش پہ تھے، رستہ ء صد چراغ تھا
کون کہے گا اِس جگہ دشت نہیں تھا، باغ تھا

اِس طرح درد سے بھرے اِس طرح ٹوٹ کر گرے
جیسے کہ چشم تھی سبو جیسے کہ دل ایاغ تھا

جب سے نگاہ ہو گئی اخترِ شام کی اسیر
شب کی نہ کچھ خبر ملی دن کا نہ کچھ سراغ تھا

ہم نے بھی خود کو حجرہء خواب میں رکھ لیا کہی
کوئی جو کم نگاہ تھا کوئی جو کم فراغ تھا

وصل ِ زمین و آسماں دیکھ چکی تھی ایک بار
چہرہء شام ِ انتظار اس لیے باغ باغ تھا

اس میں تو کوئی شک نہیں ہم میں چمک دمک نہیں
آئنہء نگاہ ِ دوست آپ بھی داغ داغ تھا

سیرِ جہاں کے باب میں دونوں ہی سَیر چشم تھے
ایک کو صد ِ راہ دل، اک کے لیے دماغ تھا

صبح ہوئی تو سامنے چہرہء شہر ِ بے تپاک
رات ہوئی تو منتظر خانہء بے چراغ تھا



63


کلفتِ جاں سے دور دور، رنج و ملال سے جدا
ہم نے تجھے رکھا ہرایک صورتِ حال سے جدا

آج نگاہ اور تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اور نگاہِ سرد میں
ایک جواب اور تھا ، میرے سوال سے جدا

شام اداس،پھول زرد، شمع خموش، دل حزیں
کوئی رہا تھا تھوڑی دیر بزم ِ جمال سے جدا

ہم میں بھی کوئی رنگ ہو ذوق ِنظر کے ساتھ ساتھ
تم میں بھی کوئی بات ہو شوق ِ وصال سے جدا

تم کو نہ کچھ خبر ہوئی آمد و رفتِ ہجر کی
خانہء عشق میں رہے ایسے کمال سے جدا

کیسی عجب ہَوا چلی، ایک ہوئے ہیں باغ و دشت
گل سے خفا ہے بوئے گل، رم ہے غزال سے جدا

دھند میں اور دھوپ میں، نیند میں اور خواب میں
ہم تھے،مثیل سے الگ! ہم تھے، مثال سے جدا



64


دیکھ، طلب کی راہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں
دل کی اس ایک آہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

اپنا یہاں کوئی تو ہے، تُو نہیں زندگی تو ہے
خانہء کم تباہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

سچ ہے کہ مدّتوں کے بعد راہ میں یونہی ہم ملے
پھر بھی تری نگاہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

سایہء خوابِ مختصر اب بھی جھکا ہے نیند پر
شب ہے تری پناہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

ایک نگاہ، اور پھر، کس کی مجال، دیکھتا!
عشق کی بارگاہ میں، غم ہے کہاں خوشی کہاں

رنجش ِ ذات اور ہم؟ لطفِ حیات اور ہم؟
یوں بھی فقط نباہ میں،غم ہے کہاں خوشی کہاں

ہلتی ہوئی زمین پر بیٹھ کے دیکھتے رہیں
گردش ِ مہر و ماہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں

اب بڑی دیر ہو چکی،اب تو یہ عمر کھو چکی
باقی دل ِ تباہ میں غم ہے کہاں خوشی کہاں



65



صبح کو بزم ِ ناز کا رنگ اڑا ہوا ملا
پھول جلے ہوئے ملے دیپ بجھا ہوا ملا

دل کا نصیب ہے اسےگرغم ِ دوست مل سکے
ایسا نگیں بھلا کسے رَہ میں پڑا ہوا ملا

ٹوٹ کے گِر چکا تھا اور ہم نے چنی تھیں کرچیاں
آج یہ آسمان پھر سر پہ تنا ہوا ملا

جب بھی فسانہء فراق شمع ِ خموش سے سنا
خوبی ِ اتفاق سے پہلے سنا ہوا ملا

شام کے ساتھ دُور تک چلتا ہوا وہ راستہ
آج تو اپنے پاؤں کے نیچے بچھا ہوا ملا

ہجر کدے میں رات کو روز کی طرح آج بھی
نیند بجھی بجھی ملی، خواب جلا ہوا ملا

کوئی اٹھا تو دھوپ سا سارے افق پہ چھا گیا
اپنے ہی سائے سے کہیں کوئی ڈرا ہوا ملا

گھر میں اگر ہے کچھ کمی رامش و رنگ و نور کی
خانہء خواب دیکھئے کیسا سجا ہوا ملا



66


بات میں تیری لطف تھا آنکھ میں دلبری رہی
شاخ ِ نہال ِ عشق یوں آج تلک ہری رہی

ہجر کی شب میں کوئی دل،لیلٰی مثال ہو گیا
خاص کسی کے واسطے قیس کی ہمسری رہی

رنگ لگا لیے کبھی، پھول سجا لیے کبھی
ذوق ِ جمال تھا نہ تھا، آئنہ پروری رہی

رنگِ حیات دیکھ کر، گل کا ثبات دیکھ کر
سہمی ہوئی تھی بوئے گل،باد ِصبا ڈری رہی

سِحرِ جمال میں رہے، ایک خیال میں رہے
شیشہء دل میں آج تک جیسے کوئی پری رہی

دل بھی حرم سے کم نہ تھا،اس میں بسا تھا اک خدا
ساتھ کہیں پہ عزتِ پیشہء آذری رہی

موسم ِ گل رہا یہاں، یا رہی خیمہ زن خزاں
خواب کی شاخسار تو یونہی ہری بھری رہی

مصحف ِ دل پہ لکھ دیا حرفِ طلائی عشق کا
لفظ گری کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں زر گری رہی



67


دورکہیں کِھلا ہوا خواب تھا مرغزار میں
دیر تلک چلے تھے ہم نیند کے شاخسار میں

موج ِخزاں سے قبل ہی ایک ہَوائے ہجر نے
لوٹ لیا چمن مرا وہ بھی بھری بہار میں

تجھ کو وہ عہد ِ مختصر یا د نہیں رہا مگر
کوئی رہا ھے عمر بھر محشر ِ انتظار میں

اب نہ خدا کرے کہ ہم پھر تری آرزو کریں
اب ہو خدا کرے یہ دل اپنے ہی اختیار میں

آج یہ کس نے گرم ہاتھ شانہء غم پہ رکھ دیا
کون دلاسا دے گیا لمحہء سوگوار میں

کس کے لبوں پہ میرا نام گُل کی طرح چٹک گیا
کس نے اضافہ کر دیا موسم ِ خوشگوار میں

ایک نئی ہَوا کے بعد منظرِ دشت اور ہے
نقش ِ قدم کا ذکر کیا درد کے اس غبار میں

جشن ِ گلُ و نمائش ِ باغ سے دُور ہم کِھلے
ایک نگاہ کے لیے کون لگے قطار میں

راہ مین بیٹھتے گئے تھک کے مریض ِ بے دِلی
منزل ِ شوق کے اسیر اب بھی اُسی حصار میں



68


خوش ہوں کہ تیرے غم کا سہارا مجھے ملا
ٹوٹا جو آسمان، ستارہ مجھے ملا

کچھ لوگ ساری عمر ہی محروم ِ غم رہے
اک خواب ِ عشق تھا جو دوبارہ مجھے ملا

پھر شام ِ زندگی کے اُسی موڑ پر ہوں میں
جس شام، التفات تمہارا مجھے ملا

گردش میں لا کے پاؤں کے نیچے زمین کو
اک دور کے سفر کا اشارہ مجھے ملا

اِس ہجرمیں شریک تھا تُو بھی مرا تو پھر
کیسے ہوا کہ سارے کا سارا مجھے ملا

شایاں نہیں ہیں دل کے یہ غم ہائے روزگار
کیوں جو نہیں ہے مجھ کو گوارا، مجھے ملا

ہر اٹھتی موج کرنے لگی تھی زمیں سے دور
یوں، آسماں کا ایک کنارہ مجھے ملا

ترجیح تیری اور سہی اب مگر وہ خواب
سرمایہء حیات ہمارا، مجھے ملا

جلنے لگی تھیں مشعلیں خیموں کے آس پاس
پھر کیسے کوچ کا وہ اشارہ مجھے ملا

پھر رات کے دیار تلک ساتھ ہم چلے
رستے میں جب وہ شام کا تارا مجھے ملا



69


عشق دریا ہے تو آئے لب ِ ساحل آئے
موج کی طرح اٹھے اور اسے مل آئے

دل مسافر نہیں، مشتاق ِ سفر ہے ایسا
ڈر ہی جائے جو سوال ِ رہ ِ منزل آئے

ایسے اتری ہے چمن زار میں اک ساعتِ سبز
جیسے نقاش ِگُل و نقش گرِ گِل آئے

پُر سکوں ہے یہ بدن سرد سمندر کی طرح
ہاں، اگر سامنے کوئی مہ ِکامل آئے

شہر دل والوں سے خالی تو نہیں ہے، مانا
کوئی اس عشق ِجہاں تاب کے قابل آئے

سخت مشکل ہے دل و جاں کو سنبھالے رکھنا
روبرو کوئی مسیحا نہیں، قاتل آئے

نیند میں گھنٹیاں بجتی ہیں، غبار اٹھتا ہے
جیسے اس دشت میں اک خواب کا محمل آئے

جس کی غفلت سے اٹھائے ہیں الم سینکڑوں بار
پھر اسی چشم ِفسوں ساز پہ یہ دل آئے

بات کرتے ہیں تو آواز جھلس جاتی ہے
کون ان شعلہ مزاجوں کے مقابل آئے

ہفت آئینہ تھا یہ خانہء دنیا لیکن
زندگی کرنے کو اکثر یہاں غافل آئے



70


کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر
ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر

اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے
شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر

گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا
سامنے اک قریہء بے خواب و بے آباد پھر

رَم بہت کرنے لگا ہے یہ غزال ِ آرزو
پھیلتا جاتا ہے آنکھوں میں وہ دشت ِ یاد پھر

اس قدر نالاں وہ گر الفت کی یکسانی سے ہے
کس لیے ہوتا نہیں اس قید سے آزاد پھر

سیم سی اک پھیلتی جاتی ہے دیواروں پہ کیوں
بھر گئی تعبیر سے کیا خواب کی بنیاد پھر

بات تک کرنے کو گر اس شہر میں کوئی نہیں
کون سنتا ہے دل ِ بیمار کی فریاد پھر

نیند میں چلنے لگی بھیگی ہوئی ٹھنڈی ہَوا
خواب کے ہمراہ آئی اک پرانی یاد پھر

تن کو چھوتی ہیں کچھ ایسے فروری کی بارشیں
یہ خرابہ ہونے والا ہے ابھی آباد پھر

سامنے ہے پھر سے رنگا رنگ پھولوں کی بہار
دے رہی ہوں اپنے باغ ِ آرزو کو داد پھر



71


خوشبو کے ساتھ اس کی رفاقت عجیب تھی
لمس ہوائے شام کی راحت عجیب تھی

چشم شب فراق میں ٹھہری ہے آج تک
وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی

آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ
پر مستقل وصال کی وحشت عجیب تھی

لپٹا ہوا تھا ذہن سے اک کاسنی خیال
اترا تو جان و جسم کی رنگت عجیب تھی

اک شہر آرزو سے کسی دشت غم تلک
دل جا چکا تھا اور یہ ہجرت عجیب تھی

ملنے کی آرزو، نہ بچھڑنے کا کچھ ملال
ہم کو اس آدمی سے محبت عجیب تھی

آنکھیں ستارہ ساز تھیں باتیں کرشمہ ساز
اس یار سادہ رو کی طبیعت عجیب تھی

گزرا تھا ایک بار، ہوائے خزاں کے بعد
اور موجہء وصال کی حدّت عجیب تھی

ششدر تھیں سب ذہانتیں اور گنگ سب جواب
اس بے سوال آنکھ کی وحشت عجیب تھی

اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال
اس بار درد ہجر کی شدّت عجیب تھی



72



دوستی دشمنی ایک ہی شخص سے، وہ ہی دلدار ہے وہ ہی قاتل مرا
چشم بےتاب ہے جسم بے خواب ہے، دل تو پہلے ہی تھا نیم بسمل مرا

سنسناہٹ سی کیسی فضاؤں‌ میں ہے، وسوسے ہیں ہواؤں کی آواز میں
تھامتی ہوں بہت، روکتی ہوں بہت، ڈوبتا جا رہا ہے مگر دل مرا

جھاگ اڑاتی ہوئی موج در موج میں ڈوبتی اور ابھرتی ہے ناؤ مری
دور حدّ ِنظر سے بہت فاصلے پر کہیں مسکراتا ہے ساحل مرا

ہم سفر! پھر بھی اچھی طرح سوچ لو، بس چراغ‌ ِتمنا مرے پاس ہے
منزلیں بھی کچھ اتنی یقینی نہیں، راستہ بھی زیادہ ہے مشکل مرا

ان درختوں کے گہرے گھنے جھنڈ سے ایک رستہ نکل کرچلا اُس طرف
اک کنواں، پھر شجر، پھر وہ پکی سڑک، پھر نظر آئے گا سنگ ِمنزل مرا

سرمئی شام کے سائے ڈھلنے کو ہیں، تہہ بہ تہہ ابر کے پر سمٹنے کو ہیں
رات کے شبنمیں سرد رخسار پر اب چمکنے کو ہے ماہ ِکامل مرا

زندگی، روشنی، خواہشیں، لذتیں، چھوڑتا ہے بھلا کون کس کے لیے
کس قدر خام تھا وہ ارادہ ترا اور بھروسا تھا کس درجہ باطل مرا

کیا غبار ِطلب سے کوئی نعرۂ عشق، آواز ِ پا تک ابھرتی نہیں
دشت ِامید میں منتظر ہیں کہیں سبز خیمہ مرا، سرخ محمل مرا

میرے بس میں کہاں خواب اور آرزو، خواب اور آرزو دسترس میں کہاں
سرسراتی ہوئی ریت پاؤں‌ تلے اور ہواؤں کی زد پر ہے، حاصل مرا



73


رہگزر، راہ کے سارے پتھر، شجر، کچھ بدلتا نہیں
کس جگہ کیجئے اختتام ِسفر کچھ بدلتا نہیں

حرف ِ شیریں، نگاہ ِدلآویز اس شخص پر بے اثر
جیسے پانی کی بوندیں گریں سنگ پر کچھ بدلتا نہیں

یہ سنا تھا کبھی، خواب سے زندگی کا ہر اک رنگ ہے
زندگی بھر بہت خواب دیکھے مگر کچھ بدلتا نہیں

بارشوں نے یہاں سے وہاں کے سبھی راستے چُن دیے
مجھ تک آتی نہیں تیری کوئی خبر کچھ بدلتا نہیں

کیسی بے نام سی کیفیت ہے کہ دل جس کے قبضے میں ہے
باغ ہو، دشت ہو، راستہ ہو کہ گھر کچھ بدلتا نہیں

شہر سے رخ کرے کوئی صحراؤں‌کا کیا کسی پہ اثر
کر دیا جائے کوئی جو صحرا بدر کچھ بدلتا نہیں

کچھ بدلتا نہیں تا بہ حدّ ِ نظر ریت ہی ریت ہے
ریت ہی ریت ہے تا بہ حدّ ِ نظر کچھ بدلتا نہیں

کب تلک کچھ بدلنے کی امید میں لوگ جیتے رہیں
کب تک ان کو ملتی رہے یہ خبر، کچھ بدلتا نہیں

لفظ جیسے سبھی، بادلوں سے اُدھر رُک گئے ہیں کہیں
اب دعاؤں میں باقی نہیں ہے اثر کچھ بدلتا نہیں



74


باغ ِ دل میں ِگل ِ آرزو، عمر بھر لہلہاتا رہا
وہم کا سانپ بھی پاس ہی شاخ پر سرسراتا رہا

دست ِگلچیں کے اصرار پرخارحیران ہوتے رہے
پھول تو مسکراتے رہے، زخم بھی مسکراتا رہا

دھوپ، خوشبو، ہِوا، باغ میں دیر تک آتے جاتے رہے
ایک گوشے میں بیٹھا ہوا شام تک کوئی گاتا رہا

اجنبی منزلوں کی طرف زندگی کے قدم اٹھ گئے
پیڑ بازو ہلاتے رہے اور رستہ بلاتا رہا

اک نئی نظم کی جستجو رات بھر جاگتی ہی رہی
رات میرے سرہانے کا لمپ صبح تک جگمگاتا رہا

ذکر چھیڑا کسی نے ابھی دھیان میں کوئی در کھل گیا
دیر سے جو تھا بھولا ہوا ۔۔۔۔۔ دیر تک یاد آتا رہا

اپنے دل میں کسی کی طرف راستہ ڈھونڈنا تھا مجھے
کوئی جنگل تھا چاروں طرف عمر بھر سنسناتا رہا

چاہتیں اور تنہائیاں ۔۔۔۔۔۔۔ شہرتیں اور رسوائیاں
دل کے ہر شوق کے ساتھ ہی دل سے ہر خوف جاتا رہا



75


موسم ِ زرد کا ٹوٹا ہے حصار آخر ِکار
چشم ِ خوں رنگ نے دکھلائی بہار آخر ِکار

کس طرح لوگ مگر منزل ِ جاں پاتے ہیں
ہم ہوئے رستہء ہستی کا غبار آخر ِ کار

عکس آئینے پہ آئینہ ہوا عکس پہ دنگ
ایک سے لگنے لگے نقش ونگار آخر ِکار

خواب، مہتاب، ستارہ کہ مرے دل کی صدا
کون اترے گا تری رات کے پار آخر ِکار

راہ کے دونوں طرف پیڑ کھڑے تھے حیراں
سامنے تھا ۔ ۔ ۔ وہ تمنا کا دیار آخر ِکار

گاہے گاہے ہی سہی اٹھنے لگی چشم ِکرم
رفتہ رفتہ ملا اس جاں کو قرار آخر‌ ِکار

زرد ہونے سے ذرا قبل کھلا شاخ پہ پھول
گلشن ِجاں میں چلی بادِ بہار آخر ِکار

دوستوں کا یہی احساں ہے یہی مجھ پہ ستم
جان لی تو نے مری حالتِ زار آخر ِکار

دن کے ساتھ آئے گا تلخابِ غم ِدوراں بھی
ٹوٹ ہی جائے گا اس شب کا خمار آخر ِکار

ہم نے پتھر کی طرح آنکھ میں رکھے آنسو
بے حسی، تجھ پہ ہے اب دارو مدار آخر ِکار

کچھ ضروری تو نہیں منزل ِمقصود ملے
ختم ہو جائے اگر راہگزار آخر ِکار

موج کے ساتھ کوئی عکس بہا جاتا ہے
چشم ِحیراں بھی چلی جائے گی پار آخر ِکار

بے دلی، دل سے لپٹ جاتی ہے پہلے آ کر
بنتا جاتا ہے مرے گِرد حصار آخر ِکار

صبح کو بھول گئے جیسے ستاروں کا حساب
ترک کر دینا ہے زخموں کا شمار آخر ِکار

عندلیبِ چمن ِ عشق جو ٹھہرا تھا یہ دل
اک فسانے سے بنے ایک ہزار آخر ِکار

اس قدر محو رکھا چشم ِ محبت نے کہ بس
ہم بھی کہلانے لگے خواب نگار، آخر ِکار



76



نہیں تھی آسان منزل ِ عشق، راستے پر خطر تو آئے
حدود ِ سود و زیاں سے پھر بھی کسی طرح سے گزر تو آئے

لدی ہوئی ہیں ہوائیں اب بھی پرانی یادوں کی خوشبوؤں سے
کبھی کبھی راہ بھول کر ایک نرم جھونکا ادھر تو آئے

کوئی نہ پوچھے کہ آنے والے سفر میں کن منزلوں سے گزرے
علاقہء غیر سے تو نکلے ہیں، شام سے پیشتر تو آئے

زمین اک نور ِزندگی سے سبھی کا مرکز بنی ہوئی ہے
فلک کے حصے میں گو ہزاروں نجوم و شمس و قمر تو آئے

اگر وہ ناراض بے سبب ہے تو دل ہمارا بھی کم طلب ہے
نہ حال پوچھے دکھائی ہی دے، نہ پاس آئے نظر تو آئے

کتاب میں دل نہیں لگا تو کوئی نئی فلم ہی لگائیں
کسی بہانے یہ شب تو گزرے کسی طرح سے سحر تو آئے

نہیں کہ اس آنکھ میں ہمیشہ اداسیاں، رت جگے ملیں گے
ہزار پیکر سجے ملیں گے ذرا مرا خواب گر تو آئے

مجال کیا گردِ راہ کی ہے، اتر کر آ جائیں گے ستارے
قدم ٹھہر جائیں گے ہواؤں کے، راہ میں تیرا گھر تو آئے

یہ باقی ماندہ جو زندگی ہے ، گزر نہ جائے نباہنے میں
پھر اس کی باتوں میں آکر اس سے اک اور پیمان کر تو آئے

اداس ہوں گے قدیم ساحل، نراس ہو جائے گا کبھی دل
نئے جزیروں کے ساحلوں پر نئی لگن میں اتر تو آئے

بسے بسائے گھروں سے اٹھ کر بس ایک ہی پل میں چل پڑیں گے
نہ ساتھ کچھ زادِ راہ لیں گے، ذرا وہ وقت ِسفر تو آئے



77


چراغ ِ عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے
سر ِمحراب ِ جاں بس اک گماں رکھا ہوا ہے

ہوائے شام اڑتی جا رہی ہے راستوں پر
ستارہ ایک زیر ِآسماں رکھا ہوا ہے

یہی غم تھا کہ جس کی دھوم دنیا میں مچی تھی
یہی غم ہے کہ جس کو بے نشاں رکھا ہوا ہے

ہٹے، تو ایک لمحے میں بہم ہو جائیں دونوں
گلہ ایسا دِلوں کے درمیاں رکھا ہوا ہے

تری نظریں، تری آواز، تیری مسکراہٹ
سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھا ہوا ہے

لرزتا ہے بدن اس تند خواہش کے اثر سے
کہ اک تنکا سر ِآبِ رواں رکھا ہوا ہے

مُصر ہے جس کو میرا باغباں ہی کاٹنے پر
اک ایسی شاخ پر یہ آشیاں رکھا ہوا ہے

کہیں کوئی ہے انبارِ جہاں سر پر اٹھائے
کہیں، پاؤں تلے سارا جہاں رکھا ہوا ہے

الاؤ جل رہا ہے مدتوں سے داستاں میں
اور اس کے گرد کوئی کارواں رکھا ہوا ہے

رکی جاتی ہے ہر گردش زمین و آسماں کی
مرے دل پر وہ دست ِمہرباں رکھا ہوا ہے



78


ہم تو بس اک موجہء خوشبو سے بہلائے گئے
اور تھے وہ پھول جن کو رنگ پہنائے گئے

پھر ہوائیں کچھ عجب سرگوشیاں کرنے لگیں
اس سے پہلے دل کو چھو کر شام کے سائے گئے

اس خیال ِ جانفزا سے آشنائی جب ہوئی
پھر کبھی ہم اپنی قربت میں نہیں پائے گئے

دیر تک الجھے ہوئے بالوں میں دل الجھا رہا
پیش ِآئینہ بہت سے ہجر دہرائے گئ

کس طرح کی بستیاں تھیں راہ کے دونوں طرف
کون تھے وہ لوگ جو اس راہ پر آئے، گئے

شہر سے سارے پرندے کر گئے ہجرت اگر
پھر بھلا کیوں موسموں کے جال پھیلائے گئے

کس ستارے سے اتر کر آ رہی ہے یہ مہک
کس زمیں سے اس زمیں پر پھول برسائے گئے

ایک چٹکی سرخ سے گلنار ہے سارا افق
ایک مٹھی سبز سے ،بن سارے سبزائے گئے

جگمگا اٹھے تھے سب ہی دیوتاؤں کی طرح
جب یہ پتھر چاند کی کرنوں سے نہلائے گئے

جانتے ہیں خوب اُس مہماں سرائے دل کو ہم
ہاں کبھی ہم بھی وہاں کچھ روز ٹھہرائے گئے

تھا یہی عشق و غم ِدل کا فسانہ ، گر کبھی
دور افتادہ زمانوں کے سخن لائے گئے



79


کسی کی سرخروئی کی کہانی کام آئی
سواد ِ عشق میں اک خوش گمانی کام آئی

بہت خطرات تھے، جنّات تھے رستے میں لیکن
پری کی دی ہوئی کوئی نشانی کام آئی

حقیقت میں بھی جنگل کاٹ آیا شاہزادہ
مگر اس کام میں پوری جوانی کام آئی

محبت اصل میں حاصل نہ تھی اس زندگی کو
ضرورت آ پڑی تو ۔ ۔ ۔ داستانی کام آئی

ٹھہر جاتے تو ہم بھی وقف ِدنیا ہو گئے تھے
سو بحر ِشوق، تیری بیکرانی کام آئی

سنبھالا ہے کسی کی دوستی نے ہم کو ایسے
نئی ٹوٹی ۔ ۔ ۔ تو کوئی شے پرانی کام آئی

یہاں امید کی، واں اک ستارے کی چمک تھی
زمینی بجھ گئی تو ۔ ۔ ۔ آسمانی کام آئی

وفور‌ِ رنج سے سار بدن جلنے لگا تھا
تو یسے میں یہ اشکوں کی روانی کام آئی

کوئی اب لا مکاں سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے
بالآخر عمر بھر کی بے مکانی کام آئی

ہمارا بھی شہیدان ِ وفا میں ذکر ہو گا
خود اپنے عشق میں یہ زندگانی کام آئی



80


کچھ ایسے گزرے ہیں عشق کے امتحان سے ہم
نکل کر آئے ہوں جیسے اک داستان سے ہم

قبول کر تو لیے تھا سادہ دلی میں ہم نے
مگر نہ بہلیں گے مر بھر تیرے دھیان سے ہم

کبھی حیا ہے، کبھی انا ہے طلب میں حائل
وجود اپنا ہٹائیں گے درمیان سے ہم

رہیں گے سچائی کے سپید و سیہ میں کیسے
گزر کر آئے ہیں رنگنائے گمان سے ہم

کوئی بلاتا ہے نوری صدیوں کے فاصلوں سے
کبھی تو آزاد ہوں گے اس خاکدان سے ہم

گلاب کی شاخ سے نہیں کیکٹس نکلتے
تو غم اٹھاتے ہیں کس لیے تیرے دھیان سے ہم

پڑا ہے فٹ پاتھ پر ہوا کا قدیم جھونکا
چلے ہیں منزل کو یاد کے اس نشان سے ہم

سرکتی جاتی ہو دل سے کوئی چٹان جیسے
ہٹا رہے ہیں کسی کا غم ، جسم و جان سے ہم

نجانے کب اگلا پاؤں ہم ان کے پار رکھ دیں
گزر رہے ہیں ابھی زمان و مکان سے ہم

کچھ اس طرح سر کشیدہ رہتے ہیں فکرِ فن میں
کلام کرتے ہوں جس طرح آسمان سے ہم



81


قصر کا در باغ کے اندر کھلا
پھر طلسم ِ شوق کا منظر کھلا

نیند میں کھویا ہوا تھا ایک شہر
روشنی میں خواب سے باہر کھلا

دھوپ تھی اور دن کا لمبا دشت تھا
رات کو باغ ِ مہ و اختر کھلا

زندگی فانوس و گلداں ہو گئی
اس طرح اک دن وہ شیشہ گر کھلا

اب تلک بے جسم تھا میرا وجود
یہ تو اس کے جسم کو چھو کر کھلا

اک جزیرے سے ہوا لائی پیام
بادباں لہرا گئے، لنگر کھلا

ڈوبنے سے ایک لمحہ پیشتر
ساحل ِسر سبز کا منظر کھلا

ایک قسمت، شمع، پروانے کی ہے
راز یہ اس شعلے کی زد پر کھلا

وہ محبت تھی ردائے مفلسی
پاؤں کو ڈھانپا تو میرا سر کھلا

پھر ستارہ وار اس کو دیکھنا
طائر ِ بستہ کا جونہی پر کھلا

آخر ِ شب تک مسافر کے لیے
ہم نے رکھا دل کا اک اک در کھلا



82



ایک دعوت ہے کہیں خواب سرا ہونے کی
اب نہیں اپنی صدا، اپنی صدا ہونے کی

اس نے اک پھول گرایا تھا مرے رستے میں
تب سے خواہش ہے مجھے باد ِ صبا ہونے کی

اپنے لب دیکھوں نہ میں اس کی نظر دیکھ سکوں
اس اندھیرے میں کہاں کوئی دعا ہونے کی

ہم نے اک شام سے ہلکی سی گلابی لی تھی
کوئی صورت ہی نہیں قرض ادا ہونے کی

کوئی سر تا پا تمنا ہے اسے کیا معلوم
اب تمنا بھی کرے کوئی تو کیا، ہونے کی

پھراسی طاق میں سج جاؤں، اسی دل میں جلوں
آج پھر مجھ کو اجازت ہو، دیا ہونے کی

منتظرباغ بھی ہے، دشت بھی ہے، شہر بھی ہے
ہاں مگر وہ، جسے عادت ہے ہوا ہونے کی

کیسی حیرت ہے کہ پلکیں نہیں جھپکی جاتیں
منتظر کیسی خموشی ہے صدا ہونے کی

روک پاتے نہیں ہم ہونٹوں پہ آئی ہوئی بات
اور اس شخص کو عادت ہے خفا ہونے کی

یہ وہی غم ہے، اُسی شاخ پہ زردایا ہوا
اور یہ رُت بھی وہی،اِس کے ہرا ہونے کی

اس دھندلکے میں چمکتی ہے کہیں کوئی لکیر
ایک امید سی ہے شہر ِ سبا ہونے کی

کوئی صحرا سے کہے خود کو سمیٹے ورنہ
رسم پڑ جائے گی پھر آبلہ پا ہونے کی

میں بھی حسرت کی طرح ہوں ترے دل میں کب سے
مجھ کو امید ہے ہونٹوں سے ادا ہونے کی

آئنہ بھی ہے وہی، آئنے میں عکس وہی
اب کسے دیکھئے عجلت ہے نیا ہونے کی

بندگی کے مجھے آتے ہیں سلیقے سارے
اس کو فرصت ہی نہیں میرا خدا ہونے کی



83


اک گلابی دل ِ پُر خوں کی لگاتے جاتے
حرف سے ہم کوئی تصویر بناتے جاتے

جو چراغوں نے لکھی رات کی پیشانی پر
وہ حکایت بھی تو سورج کو سناتے جاتے

ان درختوں کے سبھی پات تھے دل کی صورت
ان میں سائے سے کسی یاد کے، آتے، جاتے

تیرے ماتھے پہ سجا کر کسی امید کا چاند
شام ِ ہجراں! تجھے محبوب بناتے جاتے

سنگ باری کے لیے عشق کو دنیا نے چنا
تم بھی اک پھول نشانے پہ لگاتے جاتے

آئنہ ائنہ چلتی ہوئی حیرانی میں
عکس درعکس کوئی شکل سجاتے جاتے

آسرا دیتے کسی سر کو جو ٹکرانے کا
دشت میں تم کوئی دیوار اٹھاتے جاتے

ہم سر ِراہ نہ ملتے تو بہت ممکن تھا
اپنے اک خواب کے رستے ہی سے آتے جاتے



84


مشعلیں ساتھ لیے جاتے ہو جاتے جاتے
روشنی کچھ مرے رستے میں گراتے جاتے

بستیاں خواب کی پہلے جو بسائی گئی تھیں
ہم نے دیکھی ہیں اسی راہ پر آتے جاتے

ساری امیدیں ہی کاغذ کی بنی کشتیاں ہیں
جان پاتے تو نہ پانی میں بہاتے جاتے

کوئی خاموشی صدا دیتی رہی پیچھے سے
رکتے جاتے تھےہم، آواز ملاتے جاتے

جسم جلنے لگا اک خواب کی لو سے ورنہ
اس اندھیرے سے تعلق کو نبھاتے جاتے

خود فراموشی ِالفت سے نکل پاتے تو پھر
اپنے حصے کا کوئی رنج اٹھاتے جاتے

کیا کیا جائے ہمیں وقت نے مہلت ہی نہ دی
ورنہ سورج کو چراغ اپنا دکھاتے جاتے



85


موج ِ خوں رنگ کبھی دل سے اٹھاتے جاتے
رنگ ِ دنیا تو کسی طرح ۔۔۔ مٹاتے جاتے

رات پر بس نہیں چلتا ہے ہمارا ۔۔۔ ورنہ
کچھ ستارے ترے رستے میں بچھاتے جاتے

زندگی! ہم تیرے ہونٹوں کو بناتے یاقوت
اور الماس نگاہوں میں سجاتے جاتے

تم نے پتھر مجھے جانا، یہ شکایت نہیں ہے
درد کی سل تو مرے دل سے ہٹاتے جاتے

اس شبستاں میں وہ شب آج بھی ٹھہری ہوئی ہے
ہم بھی کچھ اپنی تمنائیں جگاتے جاتے

وقت ِرخصت وہ ہَوا ساتھ دیا کرتی تھی
پیڑ کچھ دور تلک ہاتھ ہلاتے جاتے

سلسلہ صرف سخن ہی کا نہ تھا، دل کا بھی تھا
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی ۔۔۔۔ جاتے جاتے ''



86


چہرہ تو کچھ زرد پڑا ہے ایک خیال کے آ جانے سے
شعر پہ کیسی رونق آئی رنگ ِملال کے آ جانے سے

رستے پر اک پتھر ہو ، پتھر کے نیچے پھول کھلا ہو
کوئی بھی حیراں ہو سکتا ہے ایسی مثال کے آ جانے سے

رنج کے بادل گِھر آتے ہیں خوف کے سائے در آتے ہیں
مستقبل کے اندیشوں میں ماضی و حال کے آ جانے سے

کیسے کیسے آئینے تھے، اب زنگار ہوئے جاتے ہیں
خود آزار ہوئے جاتے ہیں کیسے زوال کے آ جانے سے

صبر کی سل تو دل پہ رکھی تھی انجانوں کی اس محفل میں
ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اک واقف ِحال کے آ جانے سے

پورا چاند ان ریت کے ذرّوں کو زریاب بنا سکتا ہے
دشت پہ بھی پیار آ سکتا ہے باد ِشمال کے آ جانے سے

کیا بتلائیں اک آنسو میں کیا کیا شامل ہو جاتا ہے
کیا کھو جاتا ہے ہونٹوں پر حرف ِسوال کے آ جانے سے

کیسا شکوہ حرف و لفظ سے برکت کے کم ہو جانے کا
جذب کہاں رہتا ہے خواہش ِ منصب و مال کے آ جانے سے

کوئی کرن تو میرے دریچوں کے کالے شیشوں پر اترے
کوئی بتائے، شہر ہے روشن صبح ِجمال کے آ جانے سے

گل نہ کھلے تو کون کہے گا موسم ِ گل آیا کہ نہ آیا
وقت نہ بدلا تو کیا ہو گا اگلے سال کے آ جانے سے




87


رات کی آنکھ میں تھا پھر کوئی ارماں جاناں
خواب در خواب چلی محفل ِجاناں، جاناں

دن میں بھی سہم کے سائے ہی یہاں ملتے ہیں
شام کو ہوتا ہے دل اور ہراساں جاناں

وہ دلآویز محبت جو کبھی دل میں رہی
اب تو آنکھوں میں بھی اس کا نہیں امکاں جاناں

رات بھر ایک پرندے کی صدا آتی رہی
رات بھر ہوتی رہی نیند پریشاں جاناں

کارواں جن سے گزرتے تھے صداؤں‌کے کبھی
اب ہوا پھرتی ہے اس دشت میں حیراں جاناں

بارشوں میں کسی بھیگے ہوئے جنگل کی طرح
پھر جنوں خیز ہوا دیدۂ گریاں جاناں

کس کو معلوم تھا کس گھر میں اندھیرے اترے
شہر میں رات رہا خوب چراغاں جاناں

قمقمے جلتے رہے، نغمے سنے جاتے رہے
یوں بسر ہوتی رہی ہے شب ِہجراں جاناں

کون آئے گا یہاں موج ِ بلا خیز کے بعد
اور سنبھالے گا یہ اوراق ِ پریشاں جاناں

آج پھر سے جوخیال آیا تو دل بھر آیا
تیرے چہرے پہ کوئی غم تھا نمایاں جاناں

معبد ِعشق میں جلتی ہوئی شمعوں کی طرح
چند آنسو رہے پلکوں پہ فروزاں جاناں

خواب میں آتے ہیں دن بھر کے وہ گزرے لمحات
زندگی ہے کہ کوئی خواب ِپریشاں جاناں

ساعت ِہجر اسی موڑ پہ ٹھہری ہوئی ہے
دور تک پھیلا ہے اک قریۂ ویراں جاناں

ایک آنسو ہے، کہیں دل میں چھپا رہتا ہے
اس کا آنکھوں تلک آنا نہیں آساں جاناں

زرد پتوں کی طرح ہم ہیں ہوا کی زد پر
جانے لے جائے کہاں گردش ِدوراں جاناں

ہم تو خود عہد شکن، وقت کے ہاتھوں ٹھہرے
۔۔۔ ''یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں ''۔۔۔



88


ہجر کی رات جل رہی ہے ابھی
شہ نشینوں پہ روشنی ہے ابھی

وہ کھلی شاخ ِزرد پر کونپل
یہ زمیں خواب دیکھتی ہے ابھی

پھر سے واضح کیا اندھیروں پر
ان نگاہوں میں روشنی ہے ابھی

اس سے آگے ہے کیا، نہیں معلوم
سامنے وہم کی گلی ہے ابھی

سرد مہری کے ایک پتھر پر
زندگی تھک کے سو گئی ہے ابھی

ان دریچوں پہ عشق پیچاں سے
اک طراوت نئی نئی ہے ابھی

کوئی بولا کہ میرے کانوں میں
خامشی سنسنا رہی ہے ابھی ؟

خشک ہیں نیند سے بھری آنکھیں
پھر بھی تکیے پہ کچھ نمی ہے ابھی



89


ساعت ِخواب شبنمی ہے ابھی
رات کی آنکھ میں نمی ہے ابھی

زندگی مستقل مسافت میں
تیری دہلیز پر تھمی ہے ابھی

اس کے لہجے کی سرد مہری سے
دل پہ کچھ برف سی جمی ہے ابھی

گھر میں سایوں کے آنے جانے سے
ہر طرف اک ہمہ ہمی ہے ابھی

ہم بچھڑ کر بھی کب ہوئے ہیں جدا
درمیاں کچھ خوشی غمی ہے ابھی

دھل چکا ہے بدن سے درد کا رنگ
شام کی آنکھ نیلمی ہے ابھی

تو بھی موجود ہے، زمانہ بھی
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی''



90


محفل ِشعر کیا سجی ہے ابھی
خامشی گنگنا اٹھی ہے ابھی

ایسا لگتا ہے میرے ساتھ وہ شام
راستے میں ترے کھڑی ہے ابھی

شاخ ِلرزاں پہ چاند اترا ہے
باغ میں روشنی ہوئی ہے ابھی

جاتے جاتے، دیے کی لو پہ ہوا
ایک پَل کے لیے رکی ہے ابھی

ڈھل چکا عشق، بجھ گیا سورج
صحن میں دھوپ آ رہی ہے ابھی

پھول مرجھا رہے ہیں پیکنگ میں
پھر بھی خوشبو سی پھیلتی ہے ابھی

ساری باتیں سنا کے بھی اک بات
اس کی آنکھوں میں ان کہی ہے ابھی

شہر کی نبض پرہے ہاتھ اس کا
دھڑکنیں، موت گن رہی ہے ابھی



91


موت کی بازگشت سی ہے ابھی
زندگی پھربھی زندگی ہے ابھی

جھرجھری لے کے جاگ اٹھے پتھر
خامشی کی صدا سنی ہے ابھی

کوئی وحشت، نگر کے لوگوں سے
خون کی ہولی کھیلتی ہے ابھی

جن کے ہاتھوں میں اختیارِ نظر
ان کی آنکھوں میں بے حسی ہے ابھی

جسم پتھر سہی مگر اس کے
دل میں ہلکی سی بے کلی ہے ابھی

سو گئیں ساری خواہشیں لیکن
ایک امید جاگتی ہے ابھی

شام ہے، اس کے بعد سورج کا
ایک پیغام ِآخری ہے ابھی



92


کوئی بھی فرق نہ منظر میں پڑا میرے بعد
شام کا چہرہ ہی اترا تھا ذرا میرے بعد

لوگ مصروف رہے شہر رہا پر رونق
صرف خاموشی رہی نوحہ سرا میرے بعد

خواب ِخوش رنگ! مری چشم کو مت چھوڑ ، تجھے
کون دیکھے گا مری طرح بھلا میرے بعد

اشک تھے آنکھ میں یا پھر کوئی حیرانی تھی
اس طرح شہر میں وہ پھرتا رہا میرے بعد

تجھ پہ کیا گزرے گی اے ہجر کی بجھتی ہوئی شام
جب بھی اس بام پر اک دیپ جلا میرے بعد

آئنہ توڑ کے دیکھوں، کوئی مجھ سا تو نہیں
کون پھر ہو کے گیا چہرہ نما میرے بعد

اس طرح پیچھے سے اک موجۂ خوشبو آیا
جیسے اس شاخ پر اک پھول کھلا میرے بعد

پھر کسی شاخ سے الجھی نہ ستوں سے لپٹی
دم بخود بیٹھی رہی سرد ہوا میرے بعد

گیلے رستے پہ یہ قدموں کے نشاں کیسے ہیں
مجھ سے پہلے کوئی آیا ۔۔۔ کہ گیا ۔۔۔ میرے بعد

کام آئے وہ پرندوں سے مراسم اک دن
میرا نغمہ تھا جو دنیا نے سنا میرے بعد

شاعروں نے کبھی افسانہ نگاروں نے لکھی
میری گمنام تمنا کی کتھا میرے بعد

میں نے اس عکس کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
آئنہ سوچ کے حیران ہوا ۔۔۔۔ میرے بعد

کون پہنے گا یہ کانٹوں بھرا پیراہن ِدل
کون اوڑھے گا مرے غم کی ردا میرے بعد

اب اگر آ بھی گئی دھوپ تو کیا دیکھے گی
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا میرے بعد

کیسا حیران ہے گلدان میں نرگس کا یہ پھول
میری تصویر کے نزدیک رکھا ۔۔۔ میرے بعد

وہ جو لیلٰی سے تھی منسوب کوئی وحشت ِدل
یہ زمانہ اسے ڈھونڈا ہی کِیا میرے بعد

کیسا خوش رنگ ہے آنسو کہ نظر آتا ہے
جو کسی انکھ سے ہرگز نہ بہا میرے بعد

زرد پتوں کی اداسی سے یہی لگتا ہے
باغ میں موسم ِگل بھی نہ رہا میرے بعد

اپنی تخلیق پہ حیراں ہو کہ نازاں ہو، یہی
سوچتا رہ گیا پھر میرا خدا میرے بعد

یہ تو طے ہے کہ مری روح نہیں مر سکتی
کیسا پہنے گی بھلا جسم نیا میرے بعد


~~~

No comments: